- فتوی نمبر: 20-61
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > طہارت > وضوء کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام! کہ معذور شخص کا وضو نماز کاوقت داخل ہونے سے ٹوٹے گا یا خارج ہونے سے ٹوٹے گا؟ فقہاء احناف کے اقوال کی روشنی میں راجح مذہب کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس بارے میں فقہائے حنفیہ کا راجح قول یہ ہے کہ وقت خارج ہونے سے وضو ٹوٹے گا۔
الفتاوی العالمگیریہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 74 پر ہے:
"ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق هكذا في الهداية وهو الصحيح هكذا في المحيط في نواقض الوضوء حتى لو توضأ المعذور لصلاة العيد له أن يصلي الظهر به عند أبي حنيفة ومحمد وهو الصحيح لأنها بمنزلة صلاة الضحى”
الهدایہ شرح البدایہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر پر ہے:
"وحاصله أن طهارة المعذور تنتقض بخروج الوقت أي عنده بالحدث السابق عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله وبدخوله عند زفر وبأيهما كان عند أبي يوسف رحمه الله۔۔۔۔۔۔۔والمراد بالوقت وقت المفروضة حتى لو توضأ المعذور لصلاة العيد له أن يصلي الظهر به عندهما وهو الصحيح لأنها بمنزلة صلاة الضحى ولو توضأ مرة للظهر في وقته وأخرى فيه للعصر فعند هما ليس له أن يصلي العصر به لانتقاضه بخروج وقت المفروضة "
المحیط البرھانی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 184 پر ہے:
"وثمرة الخلاف لا تظهر في هذه الصلوات التي اتصلت أوقاتها؛ لأن ما من وقت يخرج إلا ويدخل وقت آخر وما من وقت يدخل إلا ويخرج وقت آخر، وإنما تظهر في الصلوات التي لا تتصل أوقاتها، ولذلك صورتان:
إحداهما: إذا توضأت بعد طلوع الفجر للفجر، وطلعت الشمس تنتقض طهارتها عند أبي حنيفة
ومحمد رحمهما الله بخروج الوقت، حتى لم يكن لها أن تصلي صلاة الضحى بتلك الطهارة، وكذلك عند
أبي يوسف؛ لأنه يعتبر أي الأمرين وجد إما الخروج أو الدخول، وعند زفر لا تنتقض لانعدام دخول الوقت.
والثانية: إذا توضأت بعدما طلعت الشمس لا تنتقض طهارتها إلا بخروج وقت الظهر عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، حتى كان لها أن تصلي الظهر بتلك الطهارة، وعند أبي يوسف وزفر تنتقض بدخول وقت الظهر.
والصحيح ما قال أبو حنيفة ومحمد رحمهما الله؛ لأن طهارة المستحاضة للحاجة إلى أداء فرض الوقت، وخروج الوقت يدل على انقضاء الحاجة، وانقضاء الحاجة يدل على انتقاض الطهارة، أما دخول الوقت يدل على تحقق الحاجة، وتحقق الحاجة يدل على ثبوت الطهارة يجب أن يضاف انتقاض الطهارة إلى خروج الوقت الدال على انتفاء الحاجة التي تدل على انتقاض الطهارة، لا إلى دخول الوقت الدال على تحقق الحاجة التي تدل على ثبوت الطهارة”
فتاوی محمودیہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 286 پر ہے:
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(الف) جو شخص شرعا معذور ہے اس کو ہر وقت کے نماز کے لئے وضو ضروری ہے، پھر وقت ختم ہونے سے اس کا وضو باقی نہیں رہے گافجر کا وضو سورج نکلنے سے ختم ہو جائے گا، اشراق کیلئے علیحدہ وضو کی ضرورت ہو گی۔۔۔”
امداد الفتاوی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 66 پر ہے:
"معذور کے لئے وضو باقی رہنے کا حکم اور یہ کہ وہ اسی وضو سے ادا و قضا نماز پڑھ سکتا ہے
سوال(۹) زید کو قضا نمازیں بہت سی رہی ہوئی پڑھنی ہیں اور اسکا وضو نہیں ٹھیرتا اس کو وضو ٹوٹ جانے کا مرض ہے اب وہ ایک ہی وضو سے پانچ چار نمازیں اکٹھا پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب۔ جب تک ایک وقت کسی نماز کا باقی ہے اس کا وضو رہے گا اس میں جتنی قضا نمازیں چاہے پڑھے”
مسائل بہشتی زیور حصہ اول صفہ نمبر 85پر ہے:
"مسئلہ: معذور کے وضو کو نماز کے وقت کا گزرنا یا دوسرے حدث (یعنی پیشاب پاخانہ وغیرہ) کا لاحق ہونا توڑ دیتا ہے لہٰذا جس شخص کی نکسیر مسلسل جاری ہو اس نے اگر فجر کے وقت وضو کیا تو سورج نکلنے کے بعد اس وضو سے کوئی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ دوسرا وضو کرنا چاہیے”
© Copyright 2024, All Rights Reserved