- فتوی نمبر: 12-254
- تاریخ: 19 جولائی 2018
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ
سوال نمبر1۔ ہمارے والد کے انتقال کے بعد ہمارے تایا جان خواجہ محمد شریف اور ہمارے چچا جان خواجہ محمد اکرم نے مجھے بلاکر کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی مشترکہ جائیداد تقسیم کرلیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ایک عدد آبائی گھر رقبہ چار کنال ،۲۔ایک عدد دکان جو ہماری دادی جان کی تھی جو کہ ہم نے دادی جان سے خریدی جس کی رقم ہم نے باقی تین حصہ داروں کو ادا کردی اور چوتھاحصہ دادی جان نے ہمیں معاف کردیا ۔۳۔تیسری رستم سہراب کے شیئرز۔
جب ہماری یہ جائیداد تقسیم ہو رہی تھی تو میں نے اپنے چچا جان سے کہا کہ ہمارا آبائی گھر میں حصہ ہے اس حصے کو اس دکان کی رقم میں ضم کرلیں جو ہم نے دینی ہے ۔پہلے انہوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا بعد میں کہنے لگے نہیں ،آپ لوگ دکان کی نقد قیمت ادا کر و آبائی گھر کے پلاٹ جس طرح فروخت ہوتے رہیں گے ہر ایک کو اس کا حصہ ملتا رہے گا۔اس طرح ہم نے اپنی جائیداد تقسیم کرلی۔ جس کا ہمارے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے ۔یہ امر بھی واضح رہے کہ ہمارے خاندان میں زبانی کلامی جائیداد تقسیم ہوتی ہے۔ ہمارے دادا جان کی میراث جب تقسیم ہوئی تب بھی زبانی ہوئی ۔
1989میں ہمارے دادا جان انتقال کرگئے تو میرے والد مرحوم نے 1997میں اپنے بھائیوں کے حصے خریدلیے جن کی تحریر نہیں ہے ۔بتلانا مقصود یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں اس طرح جائیداد کی تقسیم ہوتی رہی ۔یہ امر واضح رہے کہ ہمارے والد صاحب نے جو حصے خریدے ان کے کاغذات انتقال رجسٹری کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے ۔ ہمارے والد صاحب نے جو جائیداد اپنے بھائیوں سے خریدی یعنی ان کے حصے کی رقم ہمارے تایا چچا جان نے وصول کرلی مگر کاغذات نہ دیے ۔اب از سرنو کاغذات بنانے پر لاکھوں روپے خرچ ہوں گے۔ہم اس وقت چھوٹے تھے اب جب کاغذات بنیں گے تو زیادہ رقم لگے گی اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟اگر کاغذات موجود ہی نہیں ہیں تو قیمت کس چیز کی وصول کی جائے گی ۔جو دکان ہم نے دادی جان سے خریدی ہے اس کے بھی کاغذات ہمارے پاس نہیں ہیں ۔ہمارے آبائی گھر کے کاغذات بھی مکمل نہ تھے جو کہ بعد ازاں میرے تایا اور چچاجان نے مکمل کروائے ۔لہذا شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمادیں کہ ہمارے والد صاحب کے حصص جائیدادجو چچاتایا سے خرید ے ان کے کاغذات اور جودکان ہم نے دادی جان سے خریدی جس کی رقم ہم نے تایا چچا اور دادی کو ادا کی جوان کا حق بنتا تھا ۔ان کے کاغذات مہیا اور مکمل کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ؟
سوال نمبر 2۔ ہمارے والد محترم 1998میں انتقال کر گئے ہمارا جو آبائی کاروبار تھا جو ہمارے والد صاحب کرتے تھے وہ خواجہ محمد تصدق کو تفویض کردیا جو کہ 2003تک کرتے رہے ۔2003میں ہمارے بھائی خواجہ تصدق صاحب نے کینیڈا جانے کا ارادہ کیا اور اپنی والدہ صاحبہ سے اپنے حصہ سے رقم کا مطالبہ کیا کہ کینیڈا جانے کے لیے رقم دے دیں ۔ والدہ صاحب کے حکم پرہم نے خواجہ تصدق صاحب کو ان کے حصے سے پیسے دے دئیے جو رقم ہم نے مختلف اوقات میں والدہ صاحبہ کے حکم پر خواجہ تصدق صاحب کو دی اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
2003میں مبلغ پندرہ لاکھ روپے کینیڈا جانے کے لیے ۔
2008میں مبلغ اٹھارہ لاکھ روپے ان کے حصے سے کینیڈا بھیجے۔
1998سے2003تک بقول خواجہ تصدق صاحب والد کی وفات کے بعد مبلغ بارہ لاکھ روپے انہوں نے اپنے ذاتی مصرف میں استعمال کیے۔شریعت کی روشنی میں خواجہ تصدق صاحب کا حصہ باقی بھائیوں کے برابر ہو گا یا تصدق جو رقم وصول کرچکے ہیں اب ان کے حصے سے نفی کی جائے گی ؟
سوال نمبر 3۔ 2017میں بھائیوں نے اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہی ہمارے بھائی تصدق صاحب کینیڈا سے واپس آئے ۔جائیداد کے حوالے سے ہمارے بھائی خواجہ تصدق نے ہمارے چچا سے بات کی جس پر ہمارے چچا خواجہ اکرام صاحب نے کہا کہ آپ کی دادی جان نے اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کر دی تھی اور آپ کے والد کی میراث میں وہ حصہ بنتا تھا انہوں نے دادی کا جو اپنا وہ حصہ معاف کردیا تھا اور مجھے وہ حصہ نہیں چاہیے لیکن جب ہم جائیداد کی تقسیم کے متعلق فتوی لینے جامعہ اشرفیہ گئے تو انہوں نے کہاکہ آپ کی دادی جان نے جو حصہ معاف کیا ہے وہ شریعت میں معاف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان کی تقسیم کو جائیداد کی شرعی تقسیم متصور کیا جا سکتا ہے اور ہم سے استفسار کیاکہ آیا آپ کے پاس کوئی تحریری ثبوت ہے دادی صاحبہ نے حصہ معاف کر دیا تھا؟ہم نے کہا کہ ہمارے پاس تحریری ثبوت نہیں ہے۔ البتہ ہمارے تایا اور چچا کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ہماری والدہ نے جو اپنا حصہ معاف کیا ہے وہ معاف نہیں ہو سکتا ،یہ بات میرے بھائی خواجہ تصدق نے ان کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ شریعت میں ہماری والدہ کا حصہ بنتا ہے اور ان کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوا تو ہم اپنا حصہ والدہ کی طرف سے جو بنتا ہے وہ لیں گے ۔
نوٹ :دادی کے الفاظ یہ تھے ’’میں نے اپنا حصہ اپنے پوتوں کو معاف کردیا ہے ،میں نہیں لوں گی‘‘
سوال یہ ہے کہ ہمارے چچا کی بات کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا ہم تایا کو دادی کا حصہ دینے کے پابند ہیں یا نہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ اس بابت جو عرف ہے اس پر عمل ہو گا ہمارے ہاں عموماً جائیداد کے کاغذات کلیر کرانا بائع کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جائیداد کے انتقال کی فیس مشتری کی ذمہ داری ہو تی ہے۔ البتہ دونوں فریق باہمی گفت وشنید سے کوئی خرچہ آپس میں تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔
2۔ جب کوئی شریک کا روبار بڑھانے کے لیے محنت کرتا ہے تو سرمایہ اور اس پر حاصل ہونے والا نفع سب کا مشترکہ ہوا کرتا ہے تاہم محنت کرنے والے کو اس کی محنت کا عوض ملتا ہے ۔1998سے 2003تک خواجہ تصدق نے کام کیا ہے ۔اس دوران انہوں نے خدمات سرانجام دی ہیں جن کا معاوضہ دیگر ورثاء کے ذمے ہے ۔اب تک خواجہ تصدق مشترکہ کاروبارسے جو کچھ لے چکے ہیں اس کے بارے میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ ان کی پانچ سال کی محنت کے عوض کے برابر ہے یا زیادہ اگر برابر ہے تو اس لی ہوئی رقم کو ان کے حصے سے منھا نہیں کیا جائے گا۔اور اگر زائد ہے تو زائد کو ان کے حصے سے منھا کیا جائے گا۔
3۔ مذکورہ صورت میں سائل کے بیان کے مطابق دادی نے حصہ ہبہ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ لے کر تخارج کیا ہے بلکہ معاف کیا ہے جس کی حقیقت ابراء عن الاعیان کی ہے جو کہ معتبر نہیں ۔اس لیے دادی کا حصہ بدستور قائم ہے۔ اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کی طرف منتقل ہو گا ۔لہذا آپ کے چچا مطالبہ کاحق رکھتے ہیں ۔تاہم یہ ایک قانونی حق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دادی کی خواہش یہ تھی کہ ان کا حصہ پوتوں کے پاس رہے ۔دادی کے ورثاء اگر ان کی اس خواہش کا احترام کریں تو اچھی بات ہے ۔
نوٹ: والد صاحب کی وفات کے بعد سے اب تک بشمول خواجہ تصدق جن حصہ داروں نے کاروبار کو سنبھالااور کاروبار کو بڑھایا ان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق جتنی تنخواہ بنتی ہے وہ ملے گی۔جو تنخواہ بنتی ہے اگر وہ برابر برابر لے چکے ہیں تو فبھا (اچھی بات ہے) اوراگر زیادہ وصول کی ہو تو جتنے پیسے زائد لیے ہیں ان کو واپس کریں گے اور اگر پیسے کم وصول کیے ہیں تو باقی ماندہ سے وصول کرسکتے ہیں نیز اب تک مختلف شرکاء کی جانب سے گھریلو اخراجات کی مد میں جو کچھ لیا جا چکا ہے وہ بھی حساب میں شامل ہو گا
© Copyright 2024, All Rights Reserved