- فتوی نمبر: 28-339
- تاریخ: 23 نومبر 2022
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ہم تین بہنیں اور چار بھائی ہیں،تینوں بہنیں شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں اور تین بھائی شادی شدہ اور بچوں والے ہیں،البتہ ایک بھائی غیر شادی شدہ ہے،والد صاحب کی وفات30 جون2019 کو ہوئی تھی،والد صاحب کے ترکہ میں مندرجہ ذیل چیزیں تھیں:
- دو عدد مکان
- بلڈنگ مٹیریل کا کاروبار جوکہ انہوں نے خود سیٹ کیا تھا۔
- والد صاحب کے آباؤ اجداد کی طرف سے آنے والی جدی زمین جوکہ مری کے نواح میں ہمارے گاؤں میں واقع ہے۔
دو عدد مکان والد صاحب کے نام پر ہیں اور ان کی وفات تک ان کی ملکیت میں رہے ہیں۔ بلڈنگ مٹیریل کا کاروبار والد صاحب نے اپنی زندگی میں بڑے بیٹے کے حوالے کر رکھا تھا کہ یہ محنت کرتا ہے اور کاروبار کو سنبھا لتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اب والد صاحب کی وفات کے بعد میرے چاروں بھائی کاروبار سے آنے والی آمدنی کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔اس معاملے میں میرا سوال یہ ہے کہ والد صاحب کے دونوں مکانوں میں سے ایک کرایہ پر دیا ہوا ہے،جبکہ دوسرے مکان میں میرے تین شادی شدہ بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ،میرا غیر شادی شدہ بھائی،اور میری والدہ صاحبہ رہائش پذیر ہیں،اب فیملیاں بڑی ہونے کی وجہ سے والدہ صاحبہ اور میرے بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ دونوں مکان بیچ کر چار عددپلاٹ خریدکر چار گھر بنائیں گے جو ان چاروں بھائیوں کے ہو جائیں گے،والدہ صاحبہ اور میرے بھائیوں کا مؤقف یہ ہےکہ ’’والد صاحب اپنی زندگی میں یہ کہا کرتے تھے کہ یہ دونوں مکان میرے چھوٹے بیٹوں کے ہیں اس لئے آپ تینوں بہنیں والد صاحب کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے مکانوں سے دستبردار ہوجائیں،آپ بہنوں کو ہم آباؤ اجداد کی طرف سے آنے والی جدی زمین سے حصہ دیں گے لیکن دونوں مکانوں سے آپ اپنا حصہ ہمیں دے دیں‘‘۔
1۔شریعت کی روسے اس کا روبار میں بہنوں کا کوئی حصہ بنتا ہے؟
2۔اس سارے معاملے میں شریعتِ مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
نوٹ:والد صاحب نے اپنی زندگی میں تقریبا ایک کنال کا ایک عدد پلاٹ خرید کر میرے چاروں بھائیوں کے نام کروادیا تھا۔
وضاحت مطلوب ہے کہ:1۔والد نے بڑے بیٹے کو کاروبار کس حیثیت سے سپرد کیا تھا یعنی کاروبار اس کے نام کیا تھا یا نہیں؟اگر کیا تھا تو باقی بھائی اس کاروبار میں کس حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں؟ 2۔آپ کی والدہ اور بھائیوں کا مکانوں کے متعلق جو مؤقف ہے اس پر ان کےپاس کوئی ثبوت یا گواہ ہیں؟اور کیا والد نے بیٹوں کو مکان دینے کا صرف وعدہ کیا تھا یا مکان ان کے نا م بھی کر دئیے تھے؟نیز تحریر طور پر ان کے نام کئے تھے یا صرف زبانی کہا تھا؟3۔بھائیوں کا اس سارے معاملہ کے متعلق مؤقف کیا ہے؟ مذکورہ تحریر پر بھائیوں کے دستخط یا پھر ان کے رابطہ نمبر دئیے جائیں۔4۔ زندگی میں جو پلاٹ والد نے بھائیوں کو دیا تھا تو کیا والد نے بھائیوں کے نام رجسٹری کروائی تھی یا صرف زبانی کہا تھا؟
جواب وضاحت:1۔والدصاحب کی حیات میں خود والد صاحب اور بڑا بیٹا کاروبار چلایا کرتے تھے اور کاروبار کو پورا وقت دیا کرتے تھے جبکہ دوسرے تینوں بھائی وقتا فوقتا کاروبا رکو وقت دیا کرتے تھے،والد صاحب وفات سے تقریبا ایک سال قبل بیمار رہنے لگے اور کاروبار پر جانے کے قابل نہ رہے تو بڑا بیٹا ہی کاروبار کو پورا وقت دینے لگا،اس طرح بڑے بیٹے نے ہی کاروبار سنبھال لیا تھا،چونکہ شروع سے ہی والد صاحب والدہ صاحبہ،تین شادی شدہ اور ایک غیر شادی شدہ بھائی ایک ہی مکان میں رہتے تھےاور ان کا گزر بسر اسی کاروبار سے چل رہا تھا،اس لئے باقی تینوں بھائی بھی والد صاحب کی بیماری کے دوران اور ان کی وفات کے بعد مل بانٹ کر اس کاروبار کو وقت دینے لگ گئے،الغرض کاروبار کسی ادارے مثلا چیمبر آف کا مرس وغیرہ میں کسی کے نام سے رجسٹرڈ نہیں ہے جو وہ کسی کے نام پر کر جاتے،بلڈنگ مٹیریل کا کاروبار جن دو دکانوں میں چلا رہے ہیں شروع سے لے کر آج تک ان دکانوں پر میرے والد صاحب کے دادا جی کا نام لکھا ہوا ہے،والد صاحب نے ایسی کوئی تحریر نہیں لکھی کہ اس کاروبار کا مالک کون ہے؟2۔ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، صرف والدہ صاحبہ خود اور چاروں بھائی ہی گواہ ہیں،ان کے علاوہ کوئی اور گواہ نہیں ہے،دونوں مکان فی الحال والد صاحب کے نام پر ہیں۔کسی ایک بھائی کے پاس ان دونوں مکانوں میں سے کسی ایک کا قبضہ بھی نہیں ہے۔3۔چاروں بھائیوں کا مؤقف یہ ہے کہ یہ دونوں مکان ہم بیچیں گے اور چار عدد پلاٹ خریدیں گے جن پر اپنے اپنے ذاتی مکان بنائیں گے،کاغذات کسی کے نام پر والد صاحب نے نہیں کئے تھے یہ تمام باتیں زبانی ہوئی ہیں۔4۔ والد نے بھائیوں کے نام رجسٹری کروائی تھی اور زبانی طور پر بھی کہہ دیا تھا اور زندگی میں بھائیوں کو قبضہ بھی دیدیا تھا۔
میرے چاروں بھائی اپنی بہنوں کو ان دو مکانوں میں سے حصہ دینا ہی نہیں چاہتے اس لئے ان چاروں کا اس تحریر پر دستخط کروانا ایک مشروط معاملہ ہوگا اور مجھ سے قطع تعلقی کا ذریعہ ہوگا(دارالافتاء کے نمبر سے رابطہ کرکے بھائیوں کا رابطہ نمبر مانگا گیاتو سائل نے یہ کہہ کر نمبر دینے سے انکار کردیا کہ بھائی مجھ سے ناراض ہو جائیں گے، میں بطور بہن یہ چاہتی ہوں کہ شریعت مطہرہ کا اس معاملے میں جو حکم ہے وہ میرے پاس تحریری شکل میں موجود ہو،اور میں ان کو یہ باور کراسکوں کہ وراثت میں کسی کو ناراضگی اور قطع تعلقی کی بنیا دپر محروم نہیں کیا جاسکتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ تفصیل اگر حقیقت کے مطابق ہے تو جو پلاٹ آپ کے والد نے اپنی زندگی میں آپ کے بھائیوں کے نام کیا ہے وہ تو انہی کی ملکیت ہوگا اس میں بہنوں کا حصہ نہیں ہے البتہ والد صاحب کی باقی جائیداد میں بیٹیوں کو حصہ ملے گا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ والد صاحب کی وفات کے وقت کاروبار یا جائیداد وغیرہ کی شکل میں والد کا جو کل ترکہ تھا اس کے کل 88حصے کئے جا ئیں گے جن میں سے11حصے(12.5فیصد) بیوی کو ملیں گے اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو7حصے(7.954فیصد فی کس) اور چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو14حصے (15.909فیصد فی کس) ملیں گے۔
تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
8×11=88
بیوی | 3بیٹیاں | 4بیٹے |
ثمن | عصبہ | |
1 | 7 | |
11×1 | 11×7 | |
11 | 77 | |
7+7+7 | 14+14+14+14 |
2۔مذکورہ بالا تقسیم کے مطابق والد صاحب كے دونوں مکانوں میں بھی بہنوں کا حصہ ہے اوروالد صاحب کی جو جدی زمین ہے اس میں بھی بہنوں کا حصہ ہےاسی طرح جومکان کرایہ پر دیا ہوا ہے والد صاحب کی وفات سے لے کر اب تک اس مکان سے جو کرایہ وصول ہوا ہے اس میں بھی بہنوں کا حصہ ہےتاہم اگر بہنیں دونوں مکانوں میں اپنے حصے کے بدلے جدی زمین میں سے حصہ لینا چاہیں تو یہ ان کی مرضی ہے اس پر انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
نوٹ:اگروالدہ اور بھائیوں کا مؤقف مذکورہ بیان کے مخالف ہوا تو ہمارا یہ فتوی کالعدم ہوگا۔
فتاوی عالمگیری(4/374ط:رشیدیہ) میں ہے:
وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved