- فتوی نمبر: 11-357
- تاریخ: 16 مئی 2018
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
جناب مفتی صاحب !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہم چھ بھائی اور دو بہنیں ہیں ہم چھ بھائی اپنے ذاتی مکان میں ایک ہی جگہ پر رہتے ہیں ،سب بھائی اکٹھے ہیں ایک ہی ہانڈی پکتی ہے ۔ آج سے پندرہ سال پہلے ایک بھائی ابوظہبی گیا ،محنت مزدوری کرکے ایک گاڑی (ٹرک)اپنا بنالیا ۔اسی بھائی نے دوسرے کو بلایا اکٹھے کام کرکے پیسے اکٹھے کیے اور دوسرا ٹرک خرید کر دوسرے بھائی کو دیا ۔پھر دونوں نے کام کیا اور تیسرے بھائی کو بلایا۔اسے بھی ساتھ رکھا اور اسے بھی ایک ٹرک خرید کر کام پر ڈال دیا ۔کام کے حالات اچھے نہ رہنے پر تیسرا بھائی مستقل پاکستان آگیا اور یہاں پر نوکری کرلی ۔اب اس بھائی کے پاس دوگاڑیاں ہو گئیں جس نے باقی بھائیوں کو وہاں بلایا تھا ،باقی تین بھائی یہاں پاکستان میں اپنا اپنا کام کرتے اور گھر کا نظام چلاتے تھے ۔میں سب سے بڑا (طارق)بھی 2004سے سرکاری ملازمت کرتا ہوں اور تقریبا 14سال سے ہرماہ تنخواہ لاکر گھر کاراشن اور مہینہ بھر کا خرچ کرتا ہوں ۔بیرون ملک بھی یہ تین اکٹھے تھے ۔وہاں سے پیسے بھجواتے تھے جس کو ہم اپنے استعمال میں لاتے تھے ۔بھائیوں کی شادیوں میں مکان کے اوپر منزلیں ڈالنے وغیرہ کاموں میں ہم یہ پیسے استعمال کرتے تھے ہم اکٹھے ہی رہتے اور اکٹھا ہی کھاتے پکاتے تھے اور اب بھی اسی طرح ہی ہے ۔
ہم میں سے پانچ شادی شدہ ہیں جبکہ ایک کی شادی ہونا ابھی باقی ہے ۔نومبر 2017ہمارے اس بھائی کا انتقال ہو گیا جس نے باقی دو کو وہاں پر سیٹ کیاتھا ۔میں (طارق)اس سے کہتا تھا کہ وہاں کام کے حالات ٹھیک نہیں رہے تم پاکستان آجائو یہاں پر کوئی کام کرلیتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک بھائی پاکستان آیا بھی یہ جو فوت ہوا یہ بھی آنے کے لیے تیار تھا اور ایک گاڑی بیچنے کے لیے لگائی ہوئی تھی کہ پاکستان جاکر کوئی کاروبار کرتے ہیں کہ اسی دوران انتقال ہوگیا اب اس کے بچے اور بیوی ہمارے پاس ہی ہیں اور ہم بھی سارے بھائی ان کو اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔میں (طارق )نے نیت کی ہے کہ اللہ کی توفیق سے ان کی کفالت کروں گا۔اور ان کے خرچہ وغیرہ جو تا ،کپڑے وغیرہ کا خیال کروں گا ۔جس بھائی کا انتقال ہوا اس کے پاس ایک گاڑی اپنی تھی ۔دوسری اس بھائی کی جو پاکستان آگیا ۔اور اس میں آدھا حصہ کسی اور شخص کا تھا یعنی ڈیڑھ گاڑی تھی اب وہ ڈیڑھ گاڑی بیچ کر جو پیسے یہاں پر آئیں گے ان کا ہم کیا کریں ؟کیاوہ پیسے اس بیوہ اور یتیم بچوں کے ہیں ؟یا ہم بھائی ان پیسوں کو استعمال کرسکتے ہیں ؟
چونکہ ہم اکٹھے تھے اور بھائی جو فوت ہوا اس کا یہی ارادہ تھا کہ ان پیسوں سے پاکستان میں مل کرکاروبار کریں گے ۔ آپ سے گزارش ہے کہ قر آن وحدیث کی روشنی میں ہمیں یہ بتائیں کہ ہم کیا کریں ؟وہ پیسے آتے ہی بیوہ کے حوالے کردیں یا اس کو کاروبار میں استعمال کریں یا کسی اور جگہ پر استعمال کرسکتے ہیں مثلا اوپر 1منزل ڈالی تھی اس کا کافی کام ہونا ابھی باقی ہے چھوٹے بھائی کی شادی کرنا ابھی باقی ہے ۔اس کی بیوہ اور بچے ہماری کفالت میں ہیں اور رہیں گے ۔یا وہ پیسے بھائیوں میں تقسیم ہوں گے ؟اور اس تقسیم میں جتنے اس کی بیوہ کے حصہ میں آئیں اسے دیں ؟
مشکل میںہیں راہنمائی فرمائیں۔ہمارے والد صاحب وفات پا گئے ہیں والدہ حیات ہیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ وہاں پر تین بھائی اکٹھے کام کرتے تھے اور یہاں پر بھی ہم اکٹھے رہتے ہیں ۔وہ پیسے بھیجیں یا نہ بھیجیں ؟ہم اپنا گھر کا نظام چلاتے ہیں۔مزید کچھ پوچھنا چاہیں تو رابطہ کرسکتے ہیں ۔
وضاحت مطلوب ہے کہ:
1۔ آپ کے والد کا انتقال کب ہوا؟
2۔انتقال کے وقت ان کی ملکیت میں کیا کچھ تھا ؟
3۔والد نے چلتا ہوا کاروبار یا سرمایہ تو نہیں چھوڑا تھا؟
4۔اگر چھوڑا تھا تو اس کا کیا ہوا؟
5۔جو بھائی ابوظہبی گیا تھا وہ کس کے خرچے پر گیا تھا ؟
6۔شادی شدہ بھائیوں کی بیویوں نے تو زیورات وغیرہ کی صورت میں کاروبار میں شرکت نہیں کی؟
7۔بہنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں ؟
8۔بہنوں کی جانب سے وراثت کا مطالبہ یا ادائیگی کی صورت کیا ہے ؟
9۔ آپ لگ جو خرچہ کرتے تھے اور جو چیزیں آپ نے بنائی ہیں آپ لوگوں کے ذہن میں کیاتھا ؟کیا سوچ کر خرچہ کیا تھا مشترکہ رکھنا چاہتے تھے یا علیحدہ علیحدہ ملکیت میں رکھنا چاہتے تھے ؟نیز ہر شخص اپنی آمد نی کو کیا سمجھتا ہے ؟ ذاتی ملکیت یامشترکہ رقم؟
جواب وضاحت :
1۔ہمارے والد صاحب کا انتقال 31مارچ 2016کو ہوا تھا ۔
2۔ہمارے والد صاحب کے انتقال کے وقت ایک گھر جس میں ہم سب مل کر رہتے ہیں اور گائوں میں کچھ زرعی زمین تھی۔
3۔والد صاحب نے کوئی چلتا ہوا کاروبار یا سرمایہ نہیں چھوڑا تھا ۔
4۔کاروبار /سرمایہ چھوڑا ہی نہیں تھا ۔
5۔ہمارا ایک بڑا بھائی جو پہلے سے وہاں تھا ۔اس نے اسے بلایا تھا اور اس پر خرچہ وغیرہ کیا جو کہ اس نے بعد میں واپس لے لیا تھا۔
6۔ شادی شدہ بھائیوں کی بیویوں نے اپنے زیورات وغیرہ کی صورت میں کاروبار میں شرکت نہیں کی ۔
7۔ہاںسب بہنوں کی شادیاں ہو چکی ہیں ۔
8۔بہنوں کی طرف سے وراثت کامطالبہ تو نہیں تھا لیکن میرے والد صاحب نے موت سے پہلے دونوں بہنوں کو زرعی زمین جو کہ گائوں میں ہے اس میں سے ان کو حصہ دے دیا تھا ۔باقی تمام زمین ابھی اکٹھی ہے ۔لاہور میں جس مکان میںہم رہتے ہیں پتہ نہیں اس میں بھی بہنوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟
9۔ہم چونکہ اکٹھے رہتے تھے اور اب بھی رہتے ہیں تمام بھائی کماتے ہیں اور مل جل کر گھر کاخرچہ کرتے ہیں ۔والد صاحب کی ملکیت گھر گرا کر نئے سرے سے چار منزلہ اپنی ضرورت کے مطابق تعمیر کرلیا اور سوچ یہ تھی کہ اللہ پاک نے وسعت دی تو ایک گھر اور خرید کر کچھ بھائی اس میں شفٹ ہو جائیں گے اور کچھ وسعت ہوئی تو اور گھر خرید کر اس میں مزید الگ الگ ہو جائیں گے لیکن فی الحال اکٹھے ہی رہ ہیں ۔گھر میں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم خرید لیتے ہیں اور وہ اجتماعی ہی استعمال ہوتی ہے ،علیحدہ ملکیت کا تو کبھی نہیں سوچا ۔ہم سب بھائیوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اتنے کمارہا ہوں اور تم تھوڑے کما رہے ہو یا نہیں کما رہے۔بلکہ جب کوئی ضرورت درپیش ہوتی ہے تو وہ ہم مل جل کر پوری کرلیتے ہیں ۔مقصد یہ کہ روز مرہ کی ضرورتیں ہی پوری ہوتی ہیں سب بھائیوں کے کمانے سے ، آمدنی کو ذاتی ملکیت سمجھنا تو اس وقت ہوتا ہے جب ضرورت سے زائد آمدن جمع ہو رہی ہو ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ بھائیوں نے جو کچھ اپنی کمائی سے بنایا خواہ وہ گاڑیاں ہوں یا تعمیری اضافے ہوں وہ سب آپس میں مشترک تھا ،چنانچہ آپ کے بھائی کی بیوی اور بچوں کا حصہ صرف اس کے زیر استعمال ٹرک میں نہیں ہو گا بلکہ کل جائید اد میں اپنے شرعی حصے کے بقدر ہوگا۔ لہذا گاڑی بیچ کر جو پیسے حاصل ہوں گے ان میں پانچ حصے بھائیوں کے ہونگے اور چھٹا حصہ فوت شدہ بھائی کی بیوہ اور بچوں میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہو گا اسی طرح جو تعمیری اضافہ بھائیوں کی مشترکہ کمائی سے ہوا اس کی تقسیم بھی اسی طرح ہو گی ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved