- فتوی نمبر: 27-143
- تاریخ: 01 جون 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > اخلاق و آداب
استفتاء
کیا کسی کے پاؤں کو ہاتھ لگا کر ہاتھ چومنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کسی کے پاؤں کو ہاتھ لگا کر ہاتھ چومنا جائز نہیں۔
امداد الفتاویٰ(4/279) میں ہے:
سوال: پیر میں ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چہرے پر ملنا صاحب پیر حالت قیام یا قعود میں ہوویں یا لیٹے ہوویں سنت یا مستحب یا مباح یا بدعت ہے؟
جواب: درمختار میں یہ جزئیہ ہے: وكذا مايفعله الجهال من تقبيل يد نفسه إذا لقى غيره فهو مكروه فلارخصة فيه (قبيل فصل فى البيع كتاب الحظر والاباحة) پس اگر چہرے پر ملنا مثل تقبیل کے ہو تب تو اس روایت سے مسئلہ کا جواب ظاہر ہے کہ مکروہ تحریمی ہے في ردالمحتار: أى تحريما ويدل عليه قوله بعد فلا رخصة فيه.اور اگر اس کے مثل نہیں ہے تو یہ روایت اس سے ساکت ہے ، دوسری روایت نظر سے نہیں گذری، اور ظاہرا قواعد سے تفصیل معلوم ہوتی ہے کہ اگر ممسوح متبرک متقی ہو اور ماسح متبع سنت صحیح العقیدہ ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز ۔ واللہ اعلم
امدادالفتاویٰ(5/348-349) میں ہے:
سوال : قدم بوسی حضرتﷺ سے ثابت ہے یا نہیں ، پیر بنگال مولوی عبد الاول صاحب جونپوری کہتے ہیں کہ قد م بوسی نبیؐ سے ثابت نہیں ہے، دوسرے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ بعض صحابہؓ نے نبیؐ صاحب کے قدم چومے ہیں ،اور بعض کہتے ہیں کہ مربیّ ایسی بلند جگہ پر بیٹھے کہ چومنے والا بغیر جھکے بغیر ہاتھ لگائے منہ سے قدم چومے تو جائز ہے۔ یہ تو محال بات ہے ہم لوگوں میں دستور ہے مربیّ بیٹھے یا کھڑا ہو چومنے والا بیٹھ کر قدم پر ہاتھ لگا کر چومتا ہے، یہ طریقہ جائز ہے کہ نہیں ۔ غرض یہ کہ ماں باپ استاد وغیرہ کے قدم پر ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چومنا گناہ کی بات ہے یا اچھی بات ہے۔ قدم بوسی نہ کرے تو بعض مربی نا خوش ہوتے ہیں۔
الجواب: في الدرالمختار طلب من عالم أو زاهد أن یدفع إليه قدمه ویمکنه من قدمه لیقبله أجابه وقیل لا یرخص فيه في ردالمحتار قوله أجابه لما أخرجه الحاکم أن رجلاً أتی النبيﷺ فقال یا رسول الله أرني شیئًا ازداد به یقیناً فقال اذهب إلیٰ تلک الشجرۃ فادعها فذهب إليها فقال إن رسول اللهﷺ یدعوک فجاءت حتّٰی سلمت علی النبيﷺ فقال لها ارجعی فرجعت قال ثم اذن له فقبل رأسه ورجليه وقال لو کنت آمر أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها وقال صحیح الإسناد اھ۔
اس سے دوامر معلوم ہوئے ایک یہ کہ نبیﷺ نے اپنی قدم بوسی کی صحابی کو اجازت دی ۔ دوسرا یہ کہ فقہاء کا اس کے جواز میں اختلاف ہے، پس ایسے امر میں بہتر یہ ہے کہ خود احتیاط رکھے اور اگر کوئی کرتا ہو تو اس پر اعتراض نہ کرے او ر جس قول میں قد م بوسی جائز ہے اس میں یہ قید نہیں لگائی گئی کہ قدم کو اوپر اٹھاوے یا منہ کو نیچے جھکاوے تو ظاہراً دونوں صورتیں جائز ہیں باقی قدم کو ہاتھ لگا کر پھر اپنا ہاتھ چومنا یہ ناجائزہے۔لما فى الدرالمختار: وكذا مايفعله الجهال من تقبيل يد نفسه إذا لقى غيره فهو مكروه فلارخصة فيه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved