- فتوی نمبر: 24
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
میرے ایک دوست کی دبئی میں ایلومینیم کی کمپنی ہے جہاں چند ملازمین مستقل تنخواہ پر کام کرتے ہیں ان کے علاوہ ایک کاریگر ایسا ہے جو کمپنی کو ضرورت پڑنے پر دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔ کمپنی کا مالک اپنے ملازمین اور اس دیہاڑی دار کاریگر سمیت ایک شخص کے گھر کام کر رہا تھا۔ اس شخص نے مالک سے کہا کہ میری بہن کے گھر بھی آپ کام کریں۔ مالک کاریگروں سمیت کام دیکھنے گیا اور پینسٹھ سو (6500)درہم پر اتفاق ہو گیا ۔اگلے دن آنے کی بات طے کر کےوہ واپس آ گئے لیکن اس دیہاڑی دار کاریگر نے کمپنی کے مالک سے چھپ کر اس عورت سے رابطہ کر لیا اور کم قیمت طے کر کے کام شروع کر دیا ۔کمپنی کے مالک کو اس پر شک ہوا تو وہ چھپ کر گیا اور دیکھا کہ وہ وہاں کام کر رہا ہے اور مالک نے ویڈیو بنا لی۔
کچھ دن بعد وہ کاریگر دفتر آیا تو مالک نے کہا کہ تم نے وہاں کام کیا ہے۔ کاریگر نے جواب دیا کہ میں نے کام نہیں کیا اور اس پر ڈٹ گیا۔ مالک کے پاس کاریگر کی دیہاڑی کے تقریباً سات آٹھ سو (700۔800) درہم بقایا تھے کاریگر نے کہا میں نے وہاں کام نہیں کیا اگر آپ کے پاس کام کرنے کا ثبوت ہے تو تم میری سابقہ دیہاڑیاں جو آپ کے پاس ہیں نہ دینا۔ اب مالک نے اسے ویڈیو نکال کے دی تو وہ شرمندہ ہو گیا
سوال یہ ہے مالک وہ پیسے جو اس مزدور کی سابقہ دیہاڑیوں کی اجرت تھی وہ رکھ سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس کاریگر کا مالک سے چھپ کر خود کم قیمت میں کام طے کرنا اور کام کرنا دھوکہ اور گناہ ہے لیکن اس کی وجہ سے مالک کو اس کاریگر کی سابقہ دیہاڑیاں ضبط کرنے کا اختیار نہیں ہے لہذا مالک اس کاریگر کی سابقہ دیہاڑیاں نہیں رکھ سکتا۔
رد المحتار علی الدر المختار، کتا ب الحدود، باب التعذیر(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر6 صفحہ نمبر 98) میں ہے:
“( قوله لا بأخذ مال في المذهب ) قال في الفتح : وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز ا هـ ومثله في المعراج ، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه ا هـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان ( قوله وفيه إلخ ) أي في البحر ، حيث قال : وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه ، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ۔۔۔ وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved