- فتوی نمبر: 10-45
- تاریخ: 27 مئی 2017
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد افضل صاحب وفات پا چکے ہیں انہوں نے درج ذیل ورثاء چھوڑے ہیں۔ ان میں وراثت کیسے تقسیم ہو گی؟
1۔ بیوی۔ 2۔ سگے بھانجے دو عدد۔ 3۔ سگی بھانجی۔ 4۔ سوتیلے بھتجیے پانچ عدد۔ 5۔ سوتیلی بھتیجیاں چار عدد۔ 6۔ سوتیلے بھانجے دو عدد۔ 7۔ سوتیلی بھانجیاں تین عدد۔
نوٹ: سوتیلے بھتجیے بھتیجیاں اور سوتیلے بھانجے بھانجیاں محمد افضل صاحب مرحوم کے باپ کی طرف سے ہیں۔
نیز مرحوم کے ماں باپ، بھائی بہن وفات سے قبل ہی فوت ہو چکے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں کل ترکہ کے 20 حصے کر کے 5 حصے بیوی کو اور باقی 15 حصے میں سے ہر سوتیلے بھتیجے کو 3-3 حصے ملیں گے۔ باقی ورثاء یعنی حقیقی و سوتیلے بھانجوں بھانجیوں اور سوتیلی بھتجیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ صورت تقسیم یہ ہے:
4×5= 20
بیوی 5 سوتیلے بھتجیے 4 سوتیلی بھتیجیاں سگے و سوتیلے بھانجے بھانجیاں
4/1 عصبہ محروم محروم
1×5 3×5
5 15
5 3+3+3+3+3
توجیہ: بیوی کو ربع ملا اولاد نہ ہونے کی وجہ سے۔ سوتیلے بھتیجے عصبہ ہیں اور باقی ورثاء ذوی الارحام ہیں۔ عصبہ کی موجودگی میں ذوی الارحام کو کچھ نہیں ملتا۔
مفید الوارثین (ص: 143) میں ہے:
’’جب میت کے حقیقی بھائی اور بھتیجا اور علاتی بھائی نہ ہو تو علاتی کے بیٹے کو وہ سب مال ملتا ہے جو ذوی الفروض سے باقی رہے، اور اگر علاتی بھائی کے دو چار بیٹے ہوں تو وہ سب اس مال میں برابر کے شریک اور حصہ دار ہوں گے۔‘‘
مفید الوارثین میں دوسری جگہ (ص: 154) میں ہے:
’’میت کے ماں باپ کی اولاد جو ذوی الفروض عصبہ نہیں جیسے بھانجا، بھانجی، بھتیجی‘‘۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved