- فتوی نمبر: 7-65
- تاریخ: 26 ستمبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
آج کل کھاد کی بوری 2000 روپے میں آتی ہے، کچھ لوگ ادھار پر اس طرح دیتے ہیں کہ 6 ماہ بعد 2500 روپے لیں گے۔ کیا ایسی صورت سود کے زمرے میں آتی ہے؟
نوٹ: مذکورہ سوال کا رف جواب مفتی صاحب نے دیا تھا جو کہ حاشیہ میں مذکور ہے۔ [1]
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کھاد کی بوری 2500 روپے ادھار پر بیچنا جائز ہے بشرطیکہ ادائیگی کی مدت متعین ہو اور بر وقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافی جرمانہ وغیرہ نہ لگایا جائے۔
و إذا عقد العقد علی أنه إلی أجل كذا بكذا أو بالنقد بكذا أو (قال) إلی شهر بكذا أو إلی شهرين بكذا فهو فاسد لأنه لم يعاطه عن ثمن معلوم و نهی النبي ﷺ عن شرطين في بيع … و هذا إذا افترقا علی هذا فإن كان يتراضيان لم يتفرقا حتی قاطعه علی ثمن معلوم و إتما العقد عليه فهو جائز لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد. (مبسوط: 13/ 8) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved