- فتوی نمبر: 7-91
- تاریخ: 11 اکتوبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
1۔ i۔ میں کاریگر کو اس کے اپنے سونے سے 21 کیرٹ کا زیور تیار کرنے کا کہتا ہوں، جب وہ زیور بنا کر لاتا ہے تو اس سے اس
طرح معاملہ کرتا ہوں کہ مثلاً اس تیار زیور کا کل وزن ایک تولہ ہے۔ ایک تولہ میں 96 رتیاں ہوتی ہیں اور خالص سونے کو 21
کیرٹ بنانے کے لیے اس میں 12 رتی میل (کھوٹ) ڈالنا پڑتا ہے، تو ایک تولہ کے تیار زیور میں خالص سونا 84 رتی ہوتا ہے اور باقی 12 رتی میل (کھوٹ) ہوتا ہے۔
چونکہ سناروں اور زر گروں کے ہاں آپس میں تبادلہ کے وقت میل (کھوٹ) کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لہذا جب کاریگر ایک تولہ کا تیار زیور لایا اور اس میں خالص سونا 84 رتی ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ میں اسے بدلہ میں 84 رتی خالص سونا دوں اور 12 رتی میل (کھوٹ) کی کاٹ کر لوں، لیکن چونکہ تیاری کے دوران سونا ویسٹ بھی ہوا ہے اور کاریگر کو بچت ہونا بھی ضروری ہے، اس لیے میں پورے 12 رتی کی کاٹ نہیں کرتا بلکہ 8 رتی میل کاٹ کرتا ہوں اور اسے مزید 4 رتی خالص سونا مزدوری اور ویسٹ کی غرض سے دیتا ہوں۔ کیا میرا کاریگر سے یہ معاملہ کرنا جائز ہے؟ جبکہ میں اسے ایک تولہ تیار زیور کے بدلہ میں 88 رتی خالص سونا موقع پر ہی دے دیتا ہوں۔
ii۔ اس تیار زیور کو آگے فروخت کرتے وقت میں گاہک کو مزدوری اور ویسٹ لگا کر فروخت کرتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے؟
2: میں کاریگر کو 21 کیرٹ کا زیور تیار کرنے کے لیے اپنا خالص سونا دیتا ہوں۔ مزدوری علیحدہ سے طے نہیں کرتے، بلکہ جو چھیجت اس کے پاس جاتی ہے، اسے مزدوری کہہ دیتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے؟
3: 20 کیرٹ کے سونے کو 21 کیرٹ کہہ کر بیچنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ (i) مذکورہ صورت جائز نہیں ہے، کیونکہ جب زیور میں کھوٹ کم ہو اور سونا زیادہ ہوتو شریعت سارے کو سونے کا حکم دیتی ہے، کھوٹ کا علیحدہ اعتبار نہیں کرتی۔ اور اس کا سونے سے تبادلہ کرتے وقت دونوں طرف سے برابر وزن کا حکم دیتی ہے، کسی بھی ایک طرف سے زائد وزن کو سود کہتی ہے۔ لہذا کاریگر سے معاملہ میں آپ کی طرف سے وزن 88 رتی ہے اور کاریگر کی طرف سے 96 رتی ہے یعنی8 رتی زائد ہے جو اگرچہ کھوٹ والا ہے مگر آپ کے لیے سود ہے۔
آپ متبادل یہ کر سکتے ہیں کہ کاریگر کو موقع پر 88 رتی خالص سونے کے بجائے 87 رتی خالص سونا دے دیں اور ایک رتی کی قیمت پیسوں میں یا چاندی وغیرہ کسی اور جنس میں دے دیں تاکہ وہ دوسری جنس پورے خود بخود باقی 9 رتی کا بدل بن جائے۔
(ii) آپ نے کاریگر سے بنا بنایا زیور خریدا ہے، اس سے اپنا سونا دے کر اجرت و مزدوری پر کام نہیں کروایا، لہذا گاہک کو فروخت کرتے وقت مزدوری کا تذکرہ غلط بیانی ہو گی۔ آپ اپنا نفع بڑھا لیں لیکن اسے مزدوری کا نام نہ دیں۔
2۔ مزدوری و اجرت کے لیے شرعی طور پر ضروری ہے کہ اس کی جو مقدار طے کی جائے وہ واقع کے مطابق ہو، اس سے کم یا زیادہ نہ ہو، جبکہ مارکیٹ میں چھیجت کا جو رواج طے ہے ضروری نہیں کہ ہر ہر زیور کی تیاری میں فقط اتنی ہی ہوتی ہو کم یا زیادہ نہ ہو۔
اس لیے چھیجت کو مزدوری قرار دینے کے بجائے آپ چند روپوؤں میں مزدوری طے کر لیں اور چھیجت کاریگر بلا عوض ہدیہ کر دیں۔
3۔ 20 کیرٹ کو 21 کیرٹ کہنا غلط بیانی ہے، جو کہ مسلمان کی شان سے بعید ہے نیز اس میں گاہک کا نقصان بھی ہے کہ وہ 21
کیرٹ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرے گا حالانکہ اس کے ذمہ 20 کیرٹ کے حساب سے بنتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved