- فتوی نمبر: 3-397
- تاریخ: 14 مارچ 2011
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میں ایک کاروباری آدمی ہوں، سامان سائنس جو اسکولوں، کالجوں کی لیبارٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وہ سپلائی کرتا ہوں۔ نسبت روڈ پر میری دکان ہے اور گڑھی شاہو میں مکان ہے۔ پاکستان بننے کے بعد شروع میں میرے والد صاحب نے 1948 میں شروع کیا تھا۔ اس کے بعد 1960 میں انٹر سائنس کی تعلیم چھوڑ دی تھی اور والد صاحب کے ساتھ کام کرنے لگا تھا۔ والد صاحب کا 1973 میں انتقال ہو گیا۔ میری عمر اس وقت 70 سال ہے۔ میری تین بیٹیاں ہیں جن کی شادی کے بعد میں نے 25 تا 30 لاکھ کی قیمت کے مکان لے کر ان کو دیے اور اشٹام پیپر پر انہوں نے لکھ دیا کہ ہمیں اپنے والد کی جائیداد اور کاروبار میں سے اپنا وراثت کا حصہ مل گیا ہے۔ اور ان کو مکانات دلاتے وقت یہ کہلایا گیا تھا کہ یہ جائیداد اور وراثت میں سے حصہ دیا جا رہا ہے۔ آج کل کی قیمت کے مطابق لڑکیوں کے مکانات کی مالیت 80 تا 90 لاکھ کے قریب ہے۔
میرے چار بیٹے ہیں۔ سب گھر میں اکٹھے رہتے تھے۔ (۱) بڑا بیٹا ذرا ذہنی طور پر مریض تھا۔ اس کی شادی کردی اور اس کی بیوی 14 سال تک گھر میں رہی لیکن اولاد نہ ہونے کے سبب اس نے کچھ ماہ پہلے خلع لے لیا۔ (۲) دوسرے بیٹے کا کاروبار الگ ہے وہ یونیورسٹیوں اور ریسرچ لیبارٹریوں میں سامان دیتا ہے اس نے دو تین سال پہلے الگ مکان بنا کر الگ رہائش اختیار کر لی ہے۔ بلکہ میرے مکان میں جو اس کا حصہ بنتا تھا اس سے بھی دست بردار ہوگیا۔ (۳) تیسرے بیٹے کا کاروبار بھی میرے ساتھ ہی تھا بعد میں اس نے الگ دفتر گلبرگ میں کرائے پر لے کر کا روبار کرلیا۔ وہاں جا کر تین سال میں وہ غلطیوں میں شراب اور جوے میں لگ گیا اور کاروبار تباہ کر لیا۔ اس قدر جوا کھیلا کہ جواریوں کا کروڑوں روپیہ کا مقروض ہو گیا۔ آخر کاروبار ختم ہوگیا اور جواری میرے گھر جیتی ہوئی رقمیں لینے آنا شروع ہو گئے اس لیے دوسرے بیٹے سے جس کا کاوربار اچھا ہے سے کہا کہ میرا قرضہ اتار دو ورنہ یہ بدمعاش جواری مجھے نقصان بھی پہونچا سکتے ہیں۔ میرے دوسرے بیٹے نے اس کی جوے اور شراب کی رقم تقریباً ڈھائی کروڑ سے زائد ادا کردی۔ اس سے اس ( دوسرے بیٹے ) کے کاروبار کو وقتی طور پر نقصان پہنچا۔ میرے پاس بھی 28،30 لاکھ روپے تھے اس کا قرض اتارنے میں لگا دیے۔ اب بھی یہ بیٹا جوے اور شراب سے باز نہیں آتا ہے اور آئے دن مجھے بلیک میل کرتا ہے۔
اس شرابی بیٹے کاحصہ مکان اور دکان میں 80، 90 لاکھ تھا جبکہ دوسرے بیٹے نے تقریباً ڈھائی کروڑ قرض اتارا۔ یہ تیسرا بیٹا (دوسرے بیٹے سے) مال لیتا ہے اور اس کی قیمت ادا نہیں کرتا۔ تیسرے اس بگڑے ہوئے بیٹے کی پچھلے سال شادی کر دی تھی۔ یہ دوسری شادی ہے ( پہلی بیوی کے چندہ ماہ بعد اس نے طلاق دیدی تھی) اب اس شادی سے ایک بیٹا ہوا ہے۔ اس کو بہت سمجھاتے ہیں لیکن اس کی ماں کو اس سے زیادہ محبت ہے۔ اب دوبارہ کاروبار شروع کرنے کا اس نے پروگرام بنایا ہے۔ میرا مکان بائیس مرلے رقبہ پر ہے۔ آٹھ کمرے رہائش کے ہیں بقایا اسٹور کی جگہ ہے۔ لیکن اب کمرے تقریبا خالی پڑے ہیں۔ میرا کاروبار کافی کم ہوگیا ہے۔ دوسرا بیٹا گھر کا خرچ چلانے میں میری مدد کرتا ہے۔ میرے پاس اب اٹھائیس تیس لاکھ کا تجارتی سامان ہے۔ لیکن پرانا اسٹاک ہے جو بہت کم چلتاہے ڈیڈ ایٹم ہیں۔ کچھ سامان جو چلنے والا ہوتا ہے وہ فروخت ہوتا رہتا ہے۔ میں اسٹا ک کے مال کی زکوٰة ادا کرتا رہتا ہوں۔ جب تیسرے بیٹے نے اس قدر زیادہ نقصان کیا تو دکان مکان اورایک پلاٹ میں اس کا حصہ تقریباً اسی نوے لاکھ بنتا تھا جبکہ دوسرے بیٹے اور باپ نے اس کا قرض ادا کر دیا تھا دو کروڑ اسی لاکھ کے قریب ادا کر دیا تھا۔ اس نے ( تیسرے بیٹے ) اشٹام لکھ کر دیا کہ مجھ والد صاحب کے وراثتی اور کاروباری حصہ میں سے میرا حصہ مل گیا ہے۔ یہ اشٹام رجسٹر کر دیا گیا ہے پھر بھی میرے مکان میں میرے ساتھ رہتا ہے۔ دکان پہلے بیٹے دوسرے بیٹے اور چوتھے بیٹے کے نام ہے۔ مکان میں بڑے بیٹے کا حصہ آٹھ ، چھوٹے بیٹے کا حصہ آٹھ آنے اور والدین کا حصہ چار آنے ہیں۔ یہ تیسرا بیٹا بد تمیزی کرتا ہے اور اپنا بھی حصہ مانگتا ہے حالانکہ اس نے اشٹام پر لکھ دیا تھا جو رجسٹر کرا یا ہوا ہے کہ اس کا حصہ اس کو مل گیا ہے۔ ہم نے اس سے کہا ٹھیک جو ماں باپ کا حصہ ہے تیرا ہوگا تجھے چھوٹا موٹا مکان لے دیں گے۔ لیکن رجسٹری والدین کے نام ہوگی۔ کیونکہ بیٹا کبھی کبھی دکان پر آجایا کرتا تھا۔ تقریباً دو سال پہلے اس کی شادی کی اس کے ایک بیٹا سات ماہ کا ہے۔ شادی کے بعد بالکل دکان پر آنا بند ہو گیا۔ کہتا ہے کہ مکان فروخت کرکے میرا حصہ مجھے دو تب میں اپنے حصے سے کچھ کاروبار کروں گا۔ دکان کی پراپرٹی میں سے بھی میرا حصہ دو۔ اس کی وجہ سے بڑا بیٹا بھی کہتا ہے کہ مکان فروخت کر کے مجھے بھی حصہ دو۔ اور دکان کی پراپرٹی میں سے بھی حصہ دو۔ سب سے بڑا اور سب سے چھوٹا بیٹا ہر ماہ تقریباً چالیس ، پچاس ہزار روپیہ لے کر خرچ کر ڈالتے ہیں اور گھر کا سارا خرچ میں اٹھاتا ہوں۔ دوسرے بیٹے کے علاوہ تینوں بیٹے (پہلا، تیسرا، اور چوتھا ) میرے ساتھ گھرمیں رہتے ہیں کوئی کام نہیں کرتے اور سارا بوجھ میں اٹھا تا ہوں۔
جو اسٹاک ہوگا میرے مرنے کے بعد کیسے تقسیم ہوگا۔ کیوں کہ زیادہ تر پرانا اور دیر میں فروخت ہونے والا ہے۔ ہوسکتاہے کہ میری زندگی میں ہی فروخت ہو جائے۔ میرے دوسرے بیٹے کا جو اچھا کاروبار ہے تو میری دکان میں ( جائیداد وغیرمنقولہ) اس کا حصہ ہے اس میں اپنا کاروبار کرتاہے۔ بڑے بیٹے اور چوتھے بیٹے کا بھی دکان کی جائیداد میں حصہ ہے ، تیسرے بیٹے نے لکھ دیا تھا کہ میرے حصہ کی رقم میں میرے قرض میں اتار دو اس لیے دکان میں اس کا حصہ نہیں ہے۔
مندرجہ بالاحالات کے تناظر میں بتلائیے کہ یہ جو کچھ اقدامات تقسیم وراثت اور جائیداد کے بارے میں کیے گئے ہیں، کیا وہ درست ہیں؟ ان میں تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت ہے؟ مضمون طویل ہے لیکن آپ حضرات کی رہنمائی سے میں شریعت کے مطابق عمل کروں گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ویسے تو جیسے آپ نے دیا وہ بھی ٹھیک ہے لیکن آپ کی وفات پر جو اثاثے آپ کی ملکیت میں ہوں گے ان میں مکمل وراثت چلے گی اور سب اولاد حصہ دار ہوگی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جن کو دے دیا وہ وراثت میں شریک نہ ہوں تو اس کی صورت یہ ہے کہ جن کو آپ نے جو کچھ دیا ہے اس کو آپ اپنا قرض شمار کیجئے۔ اور اس جائیداد کی موجودہ قیمت لگائیے جو دینے کی حالت میں جائیداد کی بنتی ہے۔ یعنی وہ قیمت جو اس حالت کی جائیداد آج بیچی جائے تو بنے۔ اور اپنے تمام اثاثے بشمول ان کے جو آپ نے بچوں کو دیے ان کو اپنا کل ترکہ بنائیے۔ کل ترکہ میں جس کا جتنا حصہ بنے وہ دیکھ لے۔ اگر وصول شدہ جائیداد کی موجودہ قیمت کے برابر ہے تو وہ صحیح ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved