- فتوی نمبر: 7-52
- تاریخ: 10 ستمبر 2014
- عنوانات: مالی معاملات > رہن و گروی
استفتاء
ایک آدمی کے پاس اپنا ایک مکان ہے، وہ تین لاکھ روپے بطور گروی لے کر ایک سال کے لیے دے دیتا ہے، لیکن کوئی کرایہ نہیں ہو گا۔ یہ بات واضح رہے کہ ایک سال کے اندر فریقین میں سے جو چاہے اپنا معاملہ ختم کر سکتا ہے۔ تو کیا شریعت کی رُو سے ایسا جائز ہے؟ اگر نہیں تو جائز صورت کیا ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
گروی پر مکان لینے دینے کی مذکورہ صورت جائز نہیں، کیونکہ مالک مکان نے جو یکمشت رقم وصول کی ہے اس کی حیثیت قرض کی ہے اور اس قرض کے بدلے میں مقروض، قرض خواہ کو اپنا مکان مفت رہائش کے لیے دے رہا ہے، اور قرض کے بدلے میں کسی قسم کا دنیاوی فائدہ حاصل کرنا سود ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
كل قرض جرّ نفعاً فهو وجه من وجوه الربا. (بيهقي)
ترجمہ: جو قرض کسی قسم کے نفع کا سبب بنے تو وہ سود ہی کی ایک صورت ہے۔
جائز صورت یہ ہے کہ گروی والے مکان کا یا تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق کرایہ ادا کیا جائے یا جتنے عرصے کے لیے مکان استعمال کرنا ہے اتنے عرصے کا کرایہ یکشمت ادا کر دیا جائے، جس کی بعد میں واپس نہ ہو اور اس یکمشت ادائیگی کی وجہ سے کرایہ میں کمی کی جا سکتی ہے۔
يكره للمرتهن أن ينتفع بالرهن و إن أذن له الراهن لأنه رباً. قلت و تعليله يفيد أنها تحريمية. (در المختار: 10/ 147)
و في الجواهر: أباح الراهن للمرتهن نفعه هل للمرتهن أن يؤاجره؟ قال لا. قيل فلو آجره و مضت المدة فالأجرة له أم للراهن قال: له إن آجره بلا إذن و يتصدق بها عند الطرفين و له أن يعيده في الرهن و إن بإذنه فلمالك و بطل الرهن و كذا لو آجره الراهن المرتهن. (در المختار: 10/ 148)
لأن عقد القرض يعتمد علی أمرين: الأمر الأول أن يعطي المال إلی أحد و يؤذن له بصرفه لصاحه بشرط أن يرد مثله إلی المقرض متی طلب منه ذلك . و الأمر الثاني : أن يكون المال المدفوع
مضموناً علی المستقرض. (قضايا فقهية معاصرة: 10/ 354) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved