• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جھگڑے کی صورت میں بیٹے کے گھر آنے پر طلاق کو معلق کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے اپنے بیٹے عمر و سے کہا کہ  تو نے فلاں  کام اس طرح کیوں نہیں کیا جواب میں  عمرونے جوابی الفاظ کہے جس پر زید کو غصہ آیا اور ایک مرتبہ کہا کہ ” اگر میرا بیٹا گھر آیا تو میری بیوی کو طلاق ہے”  پھر دوسری مرتبہ کہا “اگر میرا بیٹا میرے گھر میں آیا تو میری بیوی کو تینوں شرائط طلاق ہے” مفتیان کرام اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

نوٹ: زید کے بیٹے اس مکان کے علاوہ دوسرا مکان مشترکہ طور پر تعمیر کر رہے ہیں دوران تعمیر ان کا آپس میں اختلاف ہوا اور اسی دوران  زید نے اپنے بیٹے کو یہ الفاظ کہے ہیں جو اوپر درج ہیں آیا زید کا یہ بیٹا زیر تعمیر مکان میں کام اور تعمیر کے بعد رہائش اختیار کر سکتا ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) یہ جھگڑا زیر تعمیر مکان میں ہوا تھا یا رہائشی مکان میں؟ (2)زید نے گھر سے زیر تعمیر  گھر مراد لیا ہے یا رہائشی گھر مراد لیا ہے؟ (3) اس جھگڑے کے بعد عمرو زید کے گھر آیا ہے یا نہیں ؟(4) کیا  رہائشی اور زیر تعمیر گھر دونوں زید کے ہیں؟

جواب وضاحت: یہ جھگڑا زیر تعمیر مکان میں ہوا ہے۔(2)زید نے گھر سے دونوں مکان مراد لیے ہیں۔3۔ اس جھگڑے کے بعد ابھی تک عمرو گھر نہیں آیا۔(4) جی ہاں دونوں زید کی ملکیت ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر عمرو زید کے کسی بھی گھر آیا تو زید کی بیوی پر  تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی، البتہ تین طلاق سے بچنے کی یہ  صورت ہوسکتی   ہے کہ مذکورہ شخص (زید) عمرو کے گھر میں آنے سے پہلے پہلے  اپنی بیوی کو ایک بائنہ طلاق دیدے  یعنی یوں کہہ دے کہ میں نے آپ کو ایک بائنہ طلاق دی اس کے بعد جب عدت ختم ہوجائے یعنی اگر اس عورت  کو حیض آتا ہو تو طلاق کے بعد تین حیض گذر جائیں اور حیض آنا بند ہوگیا ہو تو 3 مہینے یعنی 90 دن گذر جائیں  تو  عمرو زید کے گھر آجائے چونکہ مذکورہ شخص (زید) کی بیوی اس وقت زید کے نکاح میں نہیں ہوگی اس  لیے  عمرو کے گھر آنے سے تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی اور  شرط پوری ہوجائے گی اور تعلیق ختم ہوجائے گی اس کے بعد زید دوبارہ نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلے ، تجدید نکاح کے بعد دوبارہ عمر و کے زید کے گھر آنے  سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور آئندہ کے لیے شوہر  (زید) کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

فتاوی عالمگیری(1/420) میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

شامی (3/ 355) میں ہے:

 (وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا، فحيلة ‌من ‌علق ‌الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها.

ہندیہ(6/397) میں  ہے:

اذا حلف بثلاث تطليقات ان لا يكلم فلانا فالسبيل ان يطلقها واحدة بائنة ويدعها حتى تنقضى عدتها ثم يكلم فلانا ثم يتزوجها كذا فى السراجية.

احسن الفتاویٰ (5/185) میں ہے:

سوال: طلاق ثلاث معلق جیساکہ ان  دخلت الدار فانت طالق ثلاثا وغیرہ کی صورت ہے اس تعلیق کو ختم کرنے کی کوئی صورت ہے کہ دخول دار بھی ہو اور طلاق بھی نہ پڑے؟

جواب: اس کی تدبیر یہ ہے کہ ایک طلاق دیدے، عد ت گذرنے کے بعد عورت گھر میں داخل ہو اس سے تعلیق ختم ہوجائے گی پھر اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے اس کے بعد دخول دار سے طلا ق نہیں پڑے گی۔

امداد الاحکام (2/75) میں ہے:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح اس مسئلہ میں کہ زید نے غصہ میں اپنی منکوحہ سے کہا کہ اگر تو اپنے باپ کے گھر  جاوے گی تو  تجھے تین طلاق ہیں اور اب تک وہ اپنے باپ کے گھر نہیں گئی ان دریافت کرنا ہے کہ کوئی صورت ایسی بھی  ہے کہ وہ اپنے باپ کے گھر چلی بھی جایا کرے اور طلاق نہ پڑے۔

جواب: صورت مسئولہ میں حیلہ یہ ہے کہ شوہر اپنی اس بیوی کو ایک طلاق بائن دے دے اور عدت طلاق گزر جانے پر عورت اپنے  باپ کے گھر چلی جائے تو اس جانے سے طلاق واقع  نہ ہوگی کیونکہ وہ اس وقت نکاح میں نہیں ہے اور اس جانب سے طلاق معلق کی تعلیق  ختم ہو جائے گی کیونکہ کوئی لفظ تعلیق میں تکرار فعل پر دال نہیں نہ استمرار زمان پر اس کے بعد  شوہر اس عورت سے نکاح کی تجدید کرے اب نکاح میں آنے کے بعد بھی وہ اپنے باپ کے ہاں  آمد ورفت کر سکے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved