• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گٹر کے اوپر نماز پڑھنے کی صورت میں نماز کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ ہماری مسجد کے باہر صحن تھا کچی جگہ تھی اس وقت اس جگہ نماز پڑھنے کی کوئی جگہ نہیں بنی تھی اس وقت ہم نے مسجد کے مین دروازے کے ساتھ تبلیغی جماعت کے لیے واش روم بنایا اور اس کا گٹر مسجد سے باہر اس کچی جگہ میں بنا دیا کچھ عرصے بعد اس جگہ پر فرش ڈال دیا گیا چونکہ وہ صحن مسجد کے برآمدے کے ساتھ متصل ہے تو اس کے بعد اس پر گرمیوں میں نماز بھی پڑھنے لگے کافی عرصے سے ہم وہاں نماز بھی پڑھ رہے ہیں اب پتا چلا کی یہاں نیچے چونکہ گٹر ہے اگرچہ وہ کافی نیچے ہے اور زیر استعمال ہے تو یہاں نماز پڑھنے میں کراہت ہے یا ہوتی ہی نہیں؟برائے مہربانی یہ فرمائیں کہ کیا اس جگہ نماز ہوتی ہے یا نہیں؟  اگر نہیں تو کیا ابھی تک جو نمازیں لا علمی میں وہاں پڑھ لیں ہیں ان کا کیا کیا جائے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر نجاست کی بدبو نہیں آتی تو فرش  پر نماز پڑھنے میں کچھ کراہت نہیں اور اگر بدبو آتی ہے تو نماز کراہت کے ساتھ درست ہو جائے گی۔

مرقاۃ المفاتیح (2/617) میں ہے:

وعن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: «نهى رسول الله  صلى الله عليه وسلم  أن يصلى في سبعة مواطن: في المزبلة، والمجزرة، والمقبرة، وقارعة الطريق، وفي الحمام، وفي ‌معاطن ‌الإبل، وفوق ظهر بيت الله

(وفي ‌معاطن ‌الإبل) : جمع عطن وهو مبرك الإبل حول الماء قاله الطيبي، وقال ابن الملك: جمع معطن بكسر الطاء، وهو الموضع الذي تبرك فيه الإبل عند الرجوع عن الماء، ويستعمل في الموضع الذي تكون فيه الإبل بالليل) ، أيضا، ويؤيده خبر مسلم: نهي عن الصلاة في مبارك الإبل وقال: لأن هذه المواضع محال النجاسة، فإن صلى فيها بغير السجادة بطلت، ومع السجادة تكره للرائحة الكريهة

شامی (2/467) میں ہے:

وعلى هذا ‌لو ‌صلى ‌على ‌حجر الرحى أو باب أو بساط غليظ أو مكعب أعلاه طاهر وباطنه نجس عند أبي يوسف لا يجوز نظرا إلى اتحاد المحل، فاستوى ظاهره وباطنه كالثوب الصفيق.

وعند محمد يجوز لأنه صلى في موضع طاهر تحته ثوب طاهر تحته ثوب نجس، بخلاف الثوب الصفيق لأن الظاهر نفاذ الرطوبة إلى الوجه الآخر. اهـ. وظاهره ترجيح قول محمد وهو الأشبه. ورجح في الخانية في مسألة الثوب قول أبي يوسف بأنه أقرب إلى الاحتياط، وتمامه في الحلية. وذكر في المنية وشرحها: إذا كانت النجاسة على باطن اللبنة أو الآجرة وصلى على ظاهرها جاز، وكذا الخشبة إن كانت غليظة بحيث يمكن أن تنشر بصفين فيما بين الوجه الذي فيه النجاسة والوجه الآخر وإلا فلا اهـ. وذكر في الحلية أن مسألة اللبنة والآجرة على الاختلاف المار بينهما، وأنه في الخانية جزم بالجواز، وهو إشارة إلى اختياره، وهو حسن متجه، وكذا مسألة الخشبة على الاختلاف، وأن الأشبه الجواز عليها مطلقا، ثم أيده بأوجه فراجعه.

(قوله مبسوط على نجس إلخ) قال في المنية: وإذا أصابت الأرض نجاسة ففرشها بطين أو جص فصلى عليها جاز وليس هذا كالثوب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved