- فتوی نمبر: 1312-68
- تاریخ: 29 نومبر 2010
استفتاء
اسلام اور جدید معاشی مسائل کے منسلکہ صفحہ 2/ 87 میں ٹی ٹی کے ذریعے پیسے بھیجنے کی جو شرائط ذکر کی گئی ہیں ان پر پیدا ہونے والے چند سوالات:
۱۔ یہاں ٹی ٹی کے جواز کی جو پہلی شرط ذکر کی گئی ہے کہ ٹی ٹی ڈالر کے مارکیٹ ریٹ پر ہو۔ تو عرض یہ ہے کہ ٹی ٹی مارکیٹ ریٹ پر ہوتی ہی نہیں ہے۔ ٹی ٹی میں ایسا ممکن نہیں، بلکہ ڈالر کا مارکیٹ ریٹ الگ ہوتا ہے اور ٹی ٹی کا ریٹ الگ ہوتا ہے گویا مارکیٹ میں ڈالر کے دو ریٹ چل رہے ہوتےہیں ایک مارکیٹ ریٹ اور دوسرا ٹی ٹی کا ریٹ۔
۲۔ ( الف ) جس سے ٹی ٹی کروا رہے ہیں تو اس کو کیا نقد روپے کی بجائے چیک دینا جائز ہے؟
(ب): اگر معاملہ تو ٹی ٹی کے آفس میں طے پائے اور ٹی ٹی کروانے والا ٹی ٹی کمپنی کے ملازم کو بینک میں بُلا کر ادائیگی کریں تو کیا یہ صورت درست ہے؟
(ج ): اگر معاملہ فون پر طے ہو جائے اور پھر اپنے دفتر میں ٹی ٹی کمپنی کا اہلکار آکر ان سے وصولی کر کے رسید دے تو کیا یہ صورت درست ہے؟
۳۔ قانوناً ٹی ٹی کے ذریعے رقم بھیجنا منع تو ہے۔ لیکن اس کا استعمال امپورٹ ایکسپورٹ میں سر عام اور کثرت سے ہو رہا ہے جس سے گورنمنٹ کی طرف سے عموماً صرف نظر کیا جاتا ہے۔
براہ کرم مندرجہ بالا امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹی ٹی کے ذریعے رقم بھیجنے کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مارکیٹ ریٹ کا مطلب یہ ہے کہ بازار میں جوریٹ چل رہا ہے اور بینک میں جو ریٹ چل رہا ہے اس کے درمیان ہو۔ لہذا اگر بازار میں ٹی ٹی کا کوئی ریٹ ہو تو ٹی ٹی کے حق میں وہی مارکیٹ ریٹ ہے۔ اس کے مطابق معاملہ کرنا ثمن مثل ہی پر معاملہ کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس ریٹ سے ہٹ کر زیادہ پر معاملہ کرے گا تو وہ ممنوع ہوگا۔
2۔ (الف): چیک دینا در اصل حوالہ کرنا ہے، اس لیے ٹی ٹی میں چیک دینا کافی نہیں کیونکہ یہ بیع الدین بالدین ہو جائیگی۔ بلکہ مجلس عقد میں نقد رقم دینا ضروری ہے۔
(ب ): یہ بھی درست نہیں کیونکہ جس مجلس میں عقد ہوا ہے اس مجلس میں احد البدلین پر قبضہ نہیں ہوا۔ اس لیے پہلے بینک سے رقم ملازم کو دیدے اس کے بعد عقد کرے۔ یا پہلے صرف وعدہ کر لیا جائے اور جب کیش حوالہ کیا جائے اس وقت عقد کر لیا جائے۔
( ج ): یہ صورت بھی درست نہیں، ہاں فون پر صرف عقد کا وعدہ کیا جاسکتا ہے، پھر جب ملازم دفتر آجائے اسی مجلس میں عقد کیا جائے اور رقم دیدی جائے۔
3۔ اگر قانوناً ٹی ٹی کے ذریعہ رقم بھیجنا منع ہو تو جواز کے لیے سرکاری افسران کا صرف نظر کافی نہیں۔ جائز قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا، البتہ اصل معاملہ فاسد نہیں ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved