• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

میراث سے متعلق چند اشکالات

استفتاء

براہ کرم اپنے حقوق اور احقر کی غلطیاں اور احقر واعزہ کے لیے دعائیں فرمائیں۔ سب سے یہ التجا ہے۔ اصل تحریر  احقر بوجوہ اپنے پاس رکھ رہا ہے۔

احقر کے کچھ کوائف: پیدائش1371ھ،1952،قانون،بلوچی زبان وادب اورانجنیئرنگ یعنی ریاضی وسائنس وغیرہ میں فاضل /فارغ گریجویٹ،دنیادار، ملازم سرکاری ہوں۔ اپنے مصلح اول سیدحامدمیاں ؒ کے مشورہ پر اور ڈاکٹر مولانا عبدالواحد سے ملاقات ،حال احوال اور حوصہ افزائی کے بعد مطلع العلوم کوئٹہ میں درس نظامی کے تقریباً تمام مقصودی دروس میں شریک ہوا، البتہ امتحان بوجوہ صرف،سراجی کا دیا جس میں اول آیا۔ پیرومصلح ثانی ڈاکٹر حفیظ اللہ سکھرویؒ کے فرمان پر مطبوعات حکیم الامت بالخصوص ،بہشتی زیور، اور حیاة المسلمین ، کامسلسل مطالعہ جاری ہے۔ اپنے اشکالات پہلے ان سے ،پھر اپنے پیر ومصلح ثالث سید محمد عبدالقدوس شادیزئی سے اور یا ان کے اور بہشتی زیور حصہ دہم اور حیاة المسلمین ، روح دوم کے مجوزہ علماء کرام اور طریقے سے حل کراتارہا۔ اب بعد مقدوربھر استخارہ اور انہی کے مشورے سے آپ/دارالافتاء کی نذر ہیں۔ بقول خود وہ بھی جوابات اور ان سے استفادہ کے خواہشمند اور منتظر ہیں۔ براہ کرم سابقہ ،ان اور آئندہ تمام سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں۔ جوابی لفافہ ہمراہ ہے۔

فرائض کے سوالات زیادہ کیوں ہیں:

لاءکالج میں اس سے زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی۔پھر معین الفرائض/العقائد/المنطق/الحکمتہ وغیرہ کے مؤلف مفتی محمود حسن اجمیریؒ کے شاگرد خاص اور مطلع العلوم میں استاد”شراج” وفقہ وغیرہ مولانا عبدالسلام خارانیؒ سے خاص طور پر سراجی پڑھی۔ اساتذہ مطلع العلوم بشمول مولانا خیرمحمد ہم جماعت تھے ،جوعرصے سے دو مدرسوں سے فتوے لکھتے اورسراجی وغیرہ پڑھاتےہیں اور وفاق کے مسئول برائے اضلاع کوئٹہ،چاغی ونوشکی ہیں۔ ایک جمعہ کو ایک مسئلہ مناسخہ غریب خانہ میں لاکر فرمایا”رات خواب میں مناسخہ کا ایک مسئلہ حل نہ کرسکا تو حضورﷺ کی زیارت ہوئی،فرمایا کہ یہ مسئلہ بشیر احمد سے پوچھو۔

آپ سے پوچھا تو آپ نےفوراً حل کرکے دیا،جاگا تو اذانیں سنیں”۔ وہ اور دیگر کئی مسئلے تو الحمد للہ حل ہوئے لیکن مطالعہ ومحنت کا شدید شوق پیدا ہوا اور دعا وکوشش جاری ہے ۔ اولاد کو طرازی شرح سراجی، اور مشکوٰة السراج، خود پڑھائے اور مدرسہ اور وفاق کے امتحانا ت میں سراجی میں ا ن کے نمبر پوری جماعت سے اور خودان کے دوسرے پرچوں سے زیادہ رہے۔ ان کے سوالات بھی شامل ہیں معہ درخواست دعا۔ فقط

کتاب:1 فہم میراث۔سیدشبیراحمد کاکاخیل،مکتبہ نعمانیہ کراچی، اسلام آباد، پنڈی طبع الاول 1999ء ،1420ھ،تقریظ مفتی نظام الدین شامزئی ،جامعہ بنوری کراچی۔

بندہ محترم مؤلف کی کتاب اور علم میراث وفلکیات میں ان کی مہارت سے واقف ہے چنانہ مؤلف جب کراچی تشریف لاتےہیں تو بندہ ان سے تخصص فی الفقہ کے طلبا کے سامنے ان محاضرات کی  درخواست کرتاہے اور الحمدللہ آپ کی محاضرات سے ہمارے طلباء خوب مستفید ہوتےہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم اسلامی کا اچھا ذوق عطافرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ مؤلف کو مزید اس طرح کی دینی خدمات کی اور امت کو ان سےاستفادہ کی توفیق عطافرمائے۔(ص:3 اقتباسات ہیں)

مؤلف کے دعوے:

احقر کے صرف ان ہی دوچارٹوں سے میراث کے تمام سوالات حل کیے جاسکتےہیں۔ میٹرک کے طلبہ کو صرف پانچ گھنٹے میں سکھائےجاسکتےہیں اوردینی مدارس میں اگر کسی کو صرف جمع تفریق ضرب،تقسیم اور کسور کا حساب آتا ہو تو ان کو بھی صرف ایک دن میں میراث کے سوالات کو حل کرنے کا طریقہ سکھایا جاسکتاہے۔ صرف دو دنوں میں میراث کا حساب سکھایا جاسکتاہے۔(ص:5سطور 12تا18) یہ کتاب دورہ حدیث کے طلبہ کو پڑھائی جائے اور اس کے بعد چارٹوں کے ذریعے میراث کے سوالات کو حل کرنے کی مشق کرائی جائے۔ اس  کے لیے امید ہے کہ پانچ دن کافی رہیں گے۔(ص:8،سطور:12تا14)۔

اشکالات:

سوال 1:کیایہ سب اتنی کم مدت میں آسان، عام معمول اور واقعہ ہے اگر نہیں تواتنی اور ایسی زبردست تقاریظ کیوں؟آخر اچھی کتاب کیسے منتخب کروں،جبکہ آگے مزید گڑبڑ ہے؟

رد: "ایک بیٹی ہے اورایک بیوی ہے، بیوی کا آٹھواں حصہ ہے اور بیٹی کا نصف۔ ان دونوں کو اپنا حصہ دینے کے بعد 8 / 3 پھربھی بچتاہے۔ اب اس 8/ 3 کا آٹھواں بیوی کو مزید ملے گا اور اسی 8/ 3 کا نصف  بیٹی کو مزید ملےگا۔ اس کو رد کہتےہیں۔(ص:56،سطور11تا13)

کیا یہ صحیح ہے ؟ ہاں تو اسی طرح جیسے لکھا ہے؟ بیٹی کے ساتھ کیابیوی کو مزید بطور ردملےگا؟

سوال 2:علاتی چچا زاد بہن اولیٰ بمقابلہ حقیقی پھوپھی زاد: بعض شارحین کے نزدیک علاتی چچازاد بہن حقیقی پھوپی زاد کے مقابلے میں اولیٰ ہے،جبکہ ظاہر الروایتہ کی رائے میں حقیقی پھوپی زاد کو علاتی چچا زاد بہن پر ترجیح دی جائیگی۔احقر کی رائے میں شارحین کی رائے میں قوت ہے۔(ص:87،س:7تا10)

حمل ،مرگ انبوہ، اولاد ملاعنہ وزنا: (حمل)دولڑکے اور دولڑکیوں کوفرض کیاجائے۔(ص10، س10)،(مرگ انبوہ کی صورت میں 12)۔دونوں اقوال پر عمل کرتے ہوئے یقینی حصوں کی تقسیم  کے بعد صرف مشکوک ترکہ کو محفوظ رکھاجائے (ص 108،س:4تا5)۔اگر ابن ملاعنہ کا باپ اس کو اپنا بیٹا تسلیم کرے تو شریعت اس بچے کو اس کا بیٹا تسلیم کرلے گی اوران میں باہم توارث قائم ہوجائے گا۔ اولاد زنا توأم(جڑواں )اگرپیدا ہوجائیں تووہ آپ میں اخیافی بھائی ہونگے اور ابن الملاعنہ اگرجڑواں پیدا ہوجائیں تو وہ آپس میں حقیقی بھائی ہونگے۔(ص:120آخری پانچ سطور)۔

سوال 3:کیایہ سب صحیح اور مفتیٰ بہ ہیں؟ نہیں تو مفتیٰ بہ معہ حوالہ جات لکھیں بالخصوص اولاد واخ واخت ملاعنہ وزنا کا حال لکھیں۔ کون کس کو محروم کریں گے اور کس میں شمار ہوں گے؟مثلاًورثاء صرف یہ ہوں تو ترکہ کیسے تقسیم ہوگا۔

1۔زوج،ام ، ** بھائی بہن،** بھائی بہن، ام سے لعان والے بھائی بہن، ام سے زناوالے بھائی بہن۔

2۔اخ واخت خیفی،اخ واخت علاتی، اخ واخت ملاعنہ ،اخ واخت زنا۔

3۔ اخ واخت علاتی، اخ واخت ملاعنہ، اخ واخت زنا۔

4۔اخ واخت ملاعنہ، اخ واخت زنا۔

5۔ام ، اخ واخت ملاعنہ۔

6۔ام، اخ واخت زنا۔

7۔اخ زنا، اخت عینی۔

ذوی الارحام میں میراث کی تقسیم /قول ابی یوسف ؒ پر زور:ص:89،س:10تاص:93 ابتدائی سطور۔

بزعم خویش دلائل اور مثالوں سے ثابت فرماتے اور یہ نتیجہ لکھتےہیں کہ صرف اسی طرح ” ذوی الارحام کا علم عملاً زندہ ہوسکتاہے”۔

سوال 4:کسی شہر،ضلع، صوبہ، ملک میں ایسافتویٰ بمطابق قول ابی یوسفؒ دینے کی کیاشرائط اور طریقے ہیں؟ ان شرائط وطرق کے پورے  ہونے سے پہلے اگر کسی شہر ،ضلع ،صوبہ،ملک کے صرف ایک دو یا نصف سے کم یا تقریباً نصف یا نصف سے زائد یا تقریباً تمام اہل حق مفتی، دارالافتاء ایسا فتویٰ دیں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

کتاب2،ص3

جامع الفتاویٰ جلد 4 مفتی محمد ایوب صابر ہرسولوی، مکتبہ رحمانیہ لاہور،29ھ،8ء

تقاریظ: اکثر واقع تقاریظ نہیں ہیں۔ بغور پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتاہے ۔ اگر ہوں بھی تو زیادہ سے زیادہ جلد اول کے بارے میں ہیں کیونکہ اس کے بعد اصل ، اول مرتب فوت ہوگئے ۔ ان کو تمام جلدوں (حتیٰ کہ ملتان والوں کے اضافوں) کے لیے استعمال کرنا کیا جائز ہے؟۔

اپنی غلطیوں  کی نسبت اکابرؒ کی طرف:

صفحات672 ، 673 پر اصل حوالہ (امداد المفتیین) کا اصل سوال اور نام ایسے بدلے کہ جواب غلط لگتاہے اور ناقابل فہم،ص:793،س:18، پر مولود قبل نکاح کے نیچے 7(سات ۱۲) لکھا ہے ، حالانکہ اصل حوالہ (امداد الفتاویٰ ج:4،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ص:241)میں "م” لکھا ہے ۔کیا یہ جائز ہے؟ احقر توجہ دلاچکا لیکن بے سود۔

۴ تا۶ بھتیجے کے ساتھ بھتیجی عصبہ:صفحات،785تا 787 ، 801، 805 وغیرہ ۔کیا یہ صحیح ہے؟

۷تا ۱۰ خلاف فن "غلط ” نامکمل جوابات:ص:757 جواب نقشہ2 787 تا 792 جواب 1 کیا صحیح ہیں؟

کتاب :3

جدید جامع الفتاویٰ جلد 9 مرتب جدید واضافے مفتی محمد انور، ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان 29ھ، 08ء

تصحیح کے دعوے اور اس پر ایک دوسرے کو داد لیکن اصل میں غلطیوں میں اضافے فرمائے۔

جدید مرتب وناشر صاحبان نے تمام اغلاط وغیرہ کی تصحیح وغیرہ کا دعویٰ اور اسے اب عوام کے لیے ” گھر کا مفتی” تحریر فرمایا ہے ،جبکہ تمام مذکورہ بالاغلطیاں بعینہ بالترتبب۔۔۔۔۔۔صفحات،ص338 ۔ 339 ،ص:454،س:3،/ 446،447، 462، 464 جواب:3،/ 424 ،جواب 2، /448 ، 449 ، 451 تا 453 ،464 جواب1 پر ہیں۔ باقی تمام تسامحات وغیرہ بھی بعینہ دیگر صفحات پر ہیں اور یہ اضافی(انعامی) ہیں۔ص:398 جوابات :2، 3 ۔ص: 466،جواب 2ملاحظہ فرمائیں۔

۱۵۔اصل واول مولف وناشران ان کے ورثاء کی اجازت کے بغیر ترتیب بدلنا اور بغیر نشاندہی اضافے۔

اصل واول مؤلف وناشر نے کتاب میں اپنی قائم کی ہوئی ترتیب کاخصوصی ذکر اور اس پر فخر تحریر فرمایا ہے۔ ملتان والوں نے ان کی یا ان کے وارثوں کے اجازت کے بغیر یہ ترتیب بالکل بدل دی اور اضافے بھی بغیر کسی نشاندہی کے ایسے فرمائے کہ اصل اور اضافہ میں کوئی امتیاز،فرق اور حد فاصل بالکل نہیں ہے۔ جو بظاہر تمام مروجہ ومسلمہ آداب وقوانین اشاعت وصحافت کے خلاف ہے۔ حکیم الامتؒ نے اپنی کسی تالیف کاحق اشاعت وغیرہ محفوظ نہیں رکھا حتی کہ امت کی خاطر ان میں بوقت اشد ضروررت اضافوں ،ترمیم وحذف وغیرہ  تک کی اجازت تحریر فرمائی ،لیکن معہ چند بنیادی ،ضروری اور مسلمہ حدود وقیود وشرائط کیا یہ ضروری یا مناسب نہیں کہ جدید مرتب وناشر کم از کم انہی کی پابندی فرمائیں؟۔

۱۶۔غلط اختصار پسندی سے صاحبان امداد الاحکام کی طرف اختلاف کا شبہ منسوب کرنا:

صفحات 471 ، 472 پر تینوں مجیبین/ مفیتان کرام کے نام نہیں لکھے جبکہ حوالہ "امداد الاحکام” کا دیا ہے  جس سے قاری ان

مختلف جوابات سے  نگران اور مؤلفین” امداد الاحکام” میں اختلاف کا قائل ہوتاہے۔ حالانکہ پہلاجواب کسی اور مفتی کا ہے جس کی تصحیح کی گئی ہے ، کیا ایسا اختصار جائز ہے؟

۱۷۔شرعی ورثاء  نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ترکہ بیت المال میں جائے گا:

ص:488 ،س:16 کیا یہ صحیح ہے؟

۱۸۔آپ کے نانا، نانی  تو اس کی سزابھگت ہی رہے ہونگے:

ص:377،آخری سطور،ص:504 وغیرہ۔سوال سے نانا ،نانی قصوروار نہیں لگتے۔ اگر ہوتے بھی تو اس طرح جزم سے لکھنامناسب نہیں لگتا،مرحومین کے لیے تلافی وتوبہ ومعافی وغیرہ کا حسن ظن بہترہے۔ ایک سائل نے توجہ بھی دلائی ، اس کے باوجود اسے حذف کرنے کی بجائے اس کی تکرار اور اس پر اصرار کیاصحیح ہے؟ کیا اسے حذف کرنا ممنوع وگناہ کبیرہ ہے۔

۱۹۔نامکمل جوابات کئی جوابات نامکمل ہیں مثلاً ص:328،جواب 1 براہ کرم مکمل تحریر اور شائع فرمائیں۔

کتاب نمبر:7،فتاویٰ ** جلد20،جامعہ فاروقیہ کراچی، 26ھ،05ء، اشکال/سوال/اقتباس، عنوان ازبشیر نمبر1۔

"قل ہو اللہ یا جبرئیل”کیا جواب صحیح،مکمل اور بمطابق سوال ہے؟ہاں تو جائز فرمایا ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز فرمایا تو مطبوع ومقبول ومعمول عام”سورة یٰس کا خاص وردکے کیا احکام ہیں۔ جس میں درمیان میں کافی غیرقران پڑھاجاتاہے۔ اور اس کی نسبت مولانا عبداللہ درخواستی کی طرف کی جاتی ہے  اور اہل حق ،سنت والجماعت بالخصوص ان کے سلسلے والوں کا معمول ووظیفہ ہے؟

۲۔جشن بخاری کی اجازت نہیں۔(ص:111 ۔ 112)مدعو صرف بیانات سننے جائے اور بغیر کھانا کھائے واپس آئے تو کیا حکم ہے؟ اگر کھانا نہ کھانے کی وجہ پوچھی جائے تو یہ اور ایسے حوالے یعنی اصل وجہ بتائے یا تو ریہ جھوٹ،روزہ وغیرہ کہے جبکہ اصل وجہ سے بات بڑھنے کا تجربہ ہو؟۔

۳۔اپنی زندگی میں مفتی بہ قول کے مطابق لڑکی کو بھی لڑکے کے برابر حصہ دیاجائے۔ص:148

۴۔وارث اورا جنبی کے لیے وصیت:ص195تا202 جمہور کےمسلک کے مطابق اور مفتیٰ بہ ہیں یا تفرد؟ کوئی عام حنفی مقلد مفتی ان کے مطابق فتویٰ دے تو وہ واجب العمل  ہے یا واجب التصحیح؟/الرد، ص401 بھی پڑھیں۔

اشکال/سوال:5

۵۔مسئلہ3   تص30                                         

ماموں کا لڑکا          پھوپھی کا لڑکا       پھوپھی کی لڑکی

** ** ** ** **

5 ،  5                8،       8               4

3،    3             2 ،      2                 2

4،   4              4

پہلی پھوپھی دوفروع کی وہ سے دوشمار ہوگی۔ ان کے حصے ان میں برابر بلاکسر تقسیم کرنے کے لیے پہلا مضروب۳۔ اور تصحیح ۹ ہے۔ ماموں کے ۳ حصے بلاکسر تقسیم کرنے کے لیے دوسرا مف۲ ت۱۸ ہوا۔

۶۔مسئلہ۵                                         

بنت العم                               خال

4                                     1

یہ دونوں ذوی الارحام کی چوتھی قسم میں داخل ہیں اورایک من جہتہ الاب ہے، دوسرا من جہتہ الام ہے۔ دوثلث بنت العم کو ملے گا۔ ایک ثلث خال کو ۔(ص:440)

اشکال وحال ممکنہ حل: احقر نے نو ماہ تک تقریباً ستر عریضے لکھے ، دس بار مفتیوں ونائبین و علماء کرام سے ملنے گیا، چالیس گھنٹے اور سو سے زائدلفافے کارڈ کاغذات یعنی ہزرا روپے خرچ کیے۔ پاکستانی(اور بظاہر پورے برصغیر) کی عدالتوں اور لاء کالجوں کی نصابی کتاب(دی ایف لا: مسلم پرسنل لا) کے مطابق سارا ترکہ خال کا حق تھا ،ہے لیکن کسی اردو کتاب اور مفتی وغیرہ سے اس کی تائید نہیں ملی بلکہ کافی ڈانٹ ڈپٹ اور بدظنی وبدگمانی ملی۔ مولوی  خیر محمد کے چار واقفوں کو ان کی اجازت سےان کے نام کا حوالہ دے کر لکھا ، آپ سمیت تقریبا ہر دارالافتاء کو لکھا لیکن جواب  ندارد۔آخر ایک دن یہ تحقیق وتدقیق ترک کرنے کا سوچا توایک مستند ومشہور کتاب میں اس سے ملتا جلتا ایک جواب ملا لیکن اس میں کوئی حوالہ نہیں ہے، چندی روز بعد مولوی خیرمحمد نے اپنےایک متخصص کا ایساجوا ب دیا لیکن خوددستخط میں تاخری کی اورفی الحال عام کرنے سے منع کیاحالانکہ احقر اسے صحیح سمجھتاہے۔ جو صاحب کتابی حل یا حوالے چاہتےہیں احقر کے ان سوالات کے جوابات کے ساتھ حکمنامہ اور ڈاک لفافہ اور چارروپے کے ٹکٹ بھیجیں تو بھیجنے کاارادہ ہے۔بہر حال آپ اپنی آزادانہ رائے اور حال ضرور تحریر فرمائیں۔

۷۔ص:451 پر غلط نقشہ بنانے والے نے داد طلب انداز میں اپنا نام انگریزی میں لکھا جو درست نہیں۔ (** کی یہ کوشش صحیح ہے یا نہیں؟)

مسئلہ87 ت1014،** **26،مف13

حقیقی چچا** 52 / 2 حقیقی پھوپھی **  364/28   عمر****26/1

24بنت                        بنت        ابن280            ابن             56       ابن

بنت   بنت    ابن                     ابن      بنت،بنت،ابن ،ابن      ابن           ابن،ابن

** ** ** ** * * ** ** * * ** * *

78/ 6  78/ 6      156/12     28            28  28    56      56         56    56           169/13، 169/13

چچا تین فروع کی وجہ سے تین مذکر یعنی چھ مونث کے برابر ہے،کریمہ چھ فروع کی وجہ سے چھ مؤنث کے برابراور رحیمہ ایک، کل تیرہ باپ کی طرف کے اور دوماں کی طرف کے لہذا مضروب اول 26 اور تصحیح اول 78 ہوا۔ چچا کے 24=6×13/52حصے اس کے فروع کو للذکر مثل حظ الانثیین دیئے۔ باقی 28 بیوی کو اکٹھےدیئے،کریمہ کا ابن پانچ فروع کی وجہ سے پانچ مذکر یعنی دس مؤنث کے برابر ہے۔ رحیمہ کاابن دو مؤنث کے اور کریمہ کی بنت ایک مؤنث یعنی کل تیرہ مؤنث کی وجہ سے مضروب دوم تیرہ اور مسئلہ حل ہوا۔

پس تحریر: براہ کرم احقر کی رقم ،محنت، وقت وغیرہ ضائع نہ فرمائیں۔ تخصص کے طلبہ کے لیے مفت ہدیہ آزمائشی ومشقی سوالات سمجھ کر ہی حل  اور جواب معہ سوالات  و دعا  ومعافی  ارسال فرمائیں ۔  مزید وبقیہ سوالات وصفحات درکار ہیں تو حکم فرمائیں ۔  بورڈ

یونیورسٹی والے کافی آسان اور مختصر پرچے بنانے کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھیجتے رہنے کا ارادہ ہے۔

آخری صفحہ 12۔اصل تحریر احقر بوجوہ اپنے پاس رکھ رہاہے۔

استفتاء: احقر جن سے آزادی اور آسانی سے دین سوالات کے جوابات لے سکتاہے ان میں ایک استاذ عالم صاحب کا لکھا ہواایک سوال جواب تقریباً مکمل اورتین فتاویٰ لکھنے والے اساتذاہ علمائے کرام کے ایک ایک جواب کے اقتباسات لکھتاہوں۔ ان پر غور فرمائیں۔

1۔** اورا س کے بیٹے **فوت ہوئے ،پسماندگان جان محمد کے دو پوتے، **کے دوبیٹے** ،**ہیں، وراثت کس طرح تقسیم ہو؟

جواب: **اور** کی جائیداد اس کے پوتے اور بیٹے ** اور **کو دیاجائے۔

2۔مسئلہ6 تص 63                                                   

زوجہ              ابن         ابن             ابن      ۷          بنت                  بنت                 بنت  

9 / 1           12   12        12           6         6          6

 مبلغ  63   الاحیاء                                    

18   18   9  9   9

3۔مسئلہ6ت12                                                                                       مضروب2

زوج        ام       اخت خیفی         اخ خیفی  4/ 2     اخت حقیقی          اخ حقیقی

6/ 3,        2 / 1         1           1                 1                 1

4۔صرف ابن العم خیفی وارث بنے گا۔ دیگر ورثاء ذوی الارحام ہونے کی وجہ سے محروم ہونگے۔۔۔عم خیفی وارث بنے گا دیگر ذوی الارحام ہونے کی وجہ سے محروم ہوں گے۔۔۔بنت العم عینی وارث ہوگی، دیگر(بشمول ابن العمة۔خال۔۱۲)محروم ہوں گے۔

احقر کو جواب نمبر۱ فن وقواعد کے خلاف اور مبہم وغیر واضح لگا اور باقی غلط وغیر مفتی بہ ۔ مجیب صاحبان کی خدمت میں احقر نے جوابات پر وضاحت وغیرہ کے لیے اشکالات پیش کئے تو نمبر۱ نے ردفرمائے اور ناراض بھی ہوئے۔نمبر۲کو بوجوہ کچھ کہہ نہ سکا۔نمبر۳ نے بعد تحقیق حتمی جواب لکھ دینے کا وعدہ فرمایا لیکن کئی ماہ گزرے، نہیں دیا۔ نمبر۴ نے مکرر ومؤدبانہ یا ددہانی پر جوشی ومعہ حوالے دوماہ بعد تصحیح فرمائی لیکن بغیر اعتذار معذرت،وضاحت وغیرہ۔

احقر نے اس دوران نمبر۳، ۴ کی بجائے دوسرے مفتی صاحبان اور دارالافتاء کی طرف سوالات بھیجے ۔زائد از تین چلوں ،مہینوں، یا ددہانیوں کے بعد تقریبا صرف نصف کے جوابات ملے ،چوتھائی ، تنقیح، مشورہ ، معذرت وغیرہ کی نذر ہوئے جبکہ چوتھائی کا جواب تک نہیں ملا حالانکہ لفافے اور یاددہانیاں بھیجیں اور فون بھی کئے اور چار کو واقفوں کے ذریعے سفارش بھی کرایا اور آخرکاریہ پیشکش بھی کی کہ بیشک ہرسائل یاکم از کم احقر سے مناسب رقم لیا کریں تاکہ فضول سائل اور سوالات کم یاختم  ہوں اور حقدار ضرورتمند بار بار یاد دہانی وغیرہ میں رقم، محنت، اور وقت کے خرچہ اور انتظار و پریشانی سے بچیں ۔براہ کرام یہ بتائیں کہ کیاحسب سابق نمبر۱ تا ۳ اور ان جیسےہی علماء کرام سے اپنے سوالات کے جوابات لینا اور پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرتارہوں۔ تو عنداللہ بر ی ہوں گا یا جس جواب پر قوی شک وغیرہ ہو تو سوچ بچار اور معتبر تر مفتی حضرات وکتب سے تحقیق ورجوع کی زحمت ومحنت کرتارہوں؟ کیا اب تھک ہارکر مجبوراً صرف اپنی تحری، دعاتوبہ واستغفار اور معتبر کتب پر انحصار کرنا کافی ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اپنے پچھلے عریضے میں عرض کیا تھا کہ جناب کے میراث سے متعلق سوال ساتھیوں کو دئے ہوئے ہیں۔ آپ کی تحریر ساتھیوں کو سمجھنے میں دشوار معلوم ہوئی۔ لہذا خود کھول کر بیٹھا تواللہ نے کام آسان فرمادیا۔ جوسمجھ میں آیا وہ بنام خدا لکھتاہوں۔آپ متفق نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے لیکن میرے لیے نظر ثانی مشکل ہوگی۔آپ کو البتہ اختیار ہوگا کہ میری بات غلط ہو تو آپ اس کی نشاندہی فرمادیں۔

1۔ اب مختلف کتابوں پر آپ نے جو اشکالات تحریر کئے ہیں ان پر تبصرہ کرنادشوار ہے کیونکہ اصل کتابیں موجود نہیں اور ہمت وحوصلہ بھی مفقود ہے۔ اس لیے حسن ظن رکھتےہوئے آپ کے اعتراضات کو درست تسلیم کرلیتاہوں۔

2۔ص:4 پر آپ نے جومسائل لکھ ہیں ان کے بارے میں فتاوی عالمگیری کے حوالے سے آپ کے حل پر رائے لکھتاہوں۔

.i اشکال /سوال ۵

کتابی حل صحیح ہے اور آپ کا حل درست نہیں

مسئلہ ت30                                                 

ماموں کے لڑکے       پھوپھی کے لڑکے            پھوپھی کی لڑکی

** ** ** **

5         5         8         8                   4

عالمگیری میں ہے:

ولوترك ابن عمة وابنة عمة فالمال بينهما للذكر مثل حظ الانثيين (ص:464، 463، ج:6)

فإن ترك ابنة خالة لأب وأم وابنة عمة لأب وأم فلابنة العمة الثلثان ولابنة الخالة الثلث.

 (عالمگیری،ص:463،ج:6)

.ii اشکال /سوال ۶              

بنت العم                خال

ہماری رائے میں سارا ترکہ خال یعنی ماموں کوملے گا، کیونکہ عالمگیری میں ہے:

(النصف الرابع) إذا انفرد واحد منهم استحق كل المال.(ص: 462،ج:6)

اور ان سے مراد ہیں اعمام لام، والعمات والخالات(ص:459،ج:6) اورپھر کہا”وكذا في أولادهم”.

مفید الوارثین میں” ذوی الارحام کاسب سے آخری چوتھا درجہ "کے عنوان کے تحت بحث سے بھی یہی نتیجہ نکلتاہے۔

.iii مسئلہ ۷

** ** ** **

حقیقی چچا                                حقیقی پھوپھی** *****

بنت                      بنت                     ابن                         ابن          ابن

بنت  بنت  ابن               ابن     ابن 2،       بنت3         ابن                    ابن2

*****                 محروم                                             محروم        3/ 1(ثلث)

3 / 2 دوثلث لانھا ولد العصبة

یعنی کل ترکہ کا 3/ 2چچا کی اولاد کو ملے گا اور 3 /1** خالہ کے پوتوں کوملےگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved