• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عورت کے سجدہ اور زوال کے وقت سے متعلق مسائل

استفتاء

  1. عورت سجدے میں پاؤں کیسے رکھے اور تشہد میں کیسے بیٹھے؟
  2. جس طرح مردوں کے لیے پاؤں کی انگلیاں سجدہ میں زمین پر لگانا ضروری ہے اگر عورت بھی پاؤں کی انگلیاں نہ لگائے تو سجدہ ہوجاتا ہے؟
  3. دن اور رات میں کونسا ٹائم ہے جس میں قرآن پاک نہیں پڑھ سکتے؟
  4. زوال کا ٹائم دن کے 12 بجے شروع ہوتا ہے تو کس ٹائم ختم ہوتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. عورت سجدہ میں مردوں کی طرح پاؤں کھڑے نہ کرے بلکہ دونوں پاؤں بچھا کر دائیں طرف کو نکالے ۔تشہد میں بھی بائیں کولہے پر بیٹھ کر دونوں پاؤں دائیں طرف کو نکال لے اس طرح کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ مل جائے۔
  2. عورت کے لیے سجدہ کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے۔ عورت سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنی رانوں کو پیٹ سے ملالے اس صورت میں عورت پاؤں کھڑے نہیں کرے  گی بلکہ بچھا کر دائیں طرف کو نکالے گی۔
  3. دن اور رات میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کی جاسکتی ہے، کسی وقت بھی ممانعت نہیں ہے۔البتہ تین مکروہ اوقات (طلوع آفتاب، زوال اور غروب) میں افضل یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کے بجائے کوئی تسبیح یا درود  شریف وغیرہ پڑھ لیا جائے۔
  4. یہ بات غلط ہے کہ زوال کا ٹائم دن کے 12 بجے شروع ہوتا ہے بلکہ زوال کا ٹائم گرمی ،سردی کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے جسے معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اوقات نماز کے دائمی نقشہ جات میں جو زوال (ظہر) کا  ٹائم لکھا  ہوتا ہے اس سے دو چار منٹ پہلے اور دو چار منٹ بعد تک زوال  کا وقت رہتا ہے یہ ایک قول ہے جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ ظہر کا وقت شروع ہونے سے تقریباً 45،40 منٹ پہلے تک زوال کا وقت رہتا ہے۔

 

 

  1. السنن الكبریٰ للبیہقی( رقم الحديث:2777) میں ہے:

عن على رضى الله عنه قال: اذا سجدت المرأة فلتحتفز ولتضم فخذيها

ترجمہ: حضرت  علیؓ سے مروی ہے وہ  ارشاد فرماتے ہیں جب عورت سجدہ کرے تو  اس کو چاہیے کہ وہ سمٹ جائے اور اپنی رانوں کو جوڑ لے۔

السنن الکبریٰ للبیہقی(رقم الحدیث:3196) میں ہے:

قال إبراهيم النخعي: إذا سجدت فلتزق بطنها بفخذيها كيلا ترتفع عجزتها ‌ولا ‌تجافي كما يجافي الرجل

ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے  تو اپنے پیٹ کو رانوں سے جوڑ لے اور  اپنی سرین کو اوپر نہ اٹھائے اور اعضاء کو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد   دور رکھتا ہے۔

شرح مسند ابی حنیفہ لملا علی قاری (1/191) میں ہے:

(عن نافع، عن ابن عمر أنه سئل كيف كن النساء يصلين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم) أي في زمانه صلى الله عليه وسلم (قال: كن يتربعن) أي في حال قعودهن (ثم أمرن أن يحتفزن) بالحاء المهملة والفاء والزاء، أي يضممن أعضاءهن بأن ‌يتوركن في جلوسهن

ردالمحتار (2/211) میں ہے:

والمرأة تنخفض فلا تبدي عضديها وتلصق بطنها ‌بفخذيها لأنه أستر

ہدایہ (1/186)  مکتبہ  بشریٰ،میں ہے:

فإن كانت امرأة جلست على إليتها اليسرى وأخرجت رجليها من الجانب الأيمن؛ لأنه أستر لها

مسائل بہشتی زیور (1/174،173) میں ہے:

تنبیہ: عورت کے لیے سجدہ میں سنت یہ ہے کہ وہ بازو پہلوؤں سے اور پیٹ ران سے اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں اور کہنیاں زمین سے ملائے اور پاؤں کھڑے نہ کرے کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

اذا سجدت الصقت بطنها بفخذيها كأستر ما يكون لها [السنن الكبرى ، رقم الحديث: 3199]

ترجمہ: عورت جب سجده كرے تو اپنا پيٹ رانوں سے چپكالے ايسے طور پر کہ اس كے ليے زياده سے زياده پردہ كا موجب ہو۔

تنبیہ: عورت بائیں سرین پر بیٹھ کر اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف کو نکال دے۔

3.الدرالمختار (2/35) ميں ہے:

الصلاة ‌فيها (أى الأوقات الثلاثة) على النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من قراءة القرآن وكأنه لانها من أركان الصلاة، فالأولى ترك ما كان ركنا لها.

4.ردالمحتار (2/38)  میں ہے:

وفي شرح النقاية للبرجندي: وقد وقع في عبارات الفقهاء أن الوقت المكروه هو عند ‌انتصاف ‌النهار إلى أن تزول الشمس ولا يخفى أن زوال الشمس إنما هو عقيب ‌انتصاف ‌النهار بلا فصل، وفي هذا القدر من الزمان لا يمكن أداء صلاة فيه، فلعل أنه لا تجوز الصلاة بحيث يقع جزء منها في هذا الزمان، أو المراد بالنهار هو النهار الشرعي وهو من أول طلوع الصبح إلى غروب الشمس، وعلى هذا يكون نصف النهار قبل الزوال بزمان يعتد به

مسائل بہشتی زیور(1/145) میں ہے:

سورج نکلنےاورٹھیک دوپہر کو اور سورج ڈوبتے وقت کوئی نماز صحیح نہیں اور ان تینوں وقت میں سجدہ تلاوت بھی مکروہ اور منع ہے۔ٹھیک دوپہر سے ضحوۂ کبریٰ سے زوال کا وقت مراد ہے یعنی زوال سے متصل قبل پون گھنٹہ یہی قول زیادہ معتبر معلوم ہوتا  ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved