• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدت کے بعد کے الفاظ میں میاں بیوی کا اختلاف

استفتاء

محترم المقام مفتی صاحب! یہ ایک مسئلہ ہے جس کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں  دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔

خاوند کا بیان

میں اللہ پاک  کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ یہ بات کرتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں ’’طلاق طلاق دیساں‘‘ یعنی طلاق، طلاق دوں گا کہا ہے۔ صرف دو بار کہتا ہے۔

بیوی کا بیان

میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر جو لکھوں گی سچ لکھوں گی۔ *** نے مجھے پسند کیا اور یہ ہماری پسند کی شادی تھی ہم بہت خوش تھے *** کا شروع سے میرے ساتھ پیار اس قدر تھا کہ انہوں نے مجھے کبھی اپنے پاؤں کے ساتھ  بھی ہاتھ نہیں لگانے دیا کہ تمہاری جگہ میرے دل میں ہے۔ *** دل سے میرے ساتھ پیار کرتے تھے مگر بظاہر کبھی محسوس نہیں ہونے دیا مگر میرا سب کچھ *** ہی تھے۔ یہ زیادہ تر اپنے موبائل کے ساتھ ہی مصروف رہتے تھے گانے سننا، موویز دیکھنا ان کا شوق تھا مگر میں اگنور ہورہی تھی مجھے یہ بات تکلیف دیتی تھی *** کو شاید احساس نہیں تھا اس بات کا یا جان بوجھ کر مجھ سے لا پرواہ ہو رہے تھے لیکن وہ کہتے تھے میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں۔ کچھ عرصے سے *** میں بہت تبدیلی آئی ہوئی تھی کام کوئی نہیں تھا بے روز گار تھے ہمجب کہیں باہر  جا رہے ہوتے میں ان سے پوچھتی بتائیں کہاں جا رہے ہیں تو ڈانٹ دیتے اور خود کو بددعائیں دینے لگ جاتے مجھے بہت افسوس ہوتا کہ ان کا رویہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہے مگر میں پھر بھی چپ رہتی۔ *** گھر سے بہت تنگ تھے مجھے کہتے تھے ہم کہیں دور جاتے ہیں دونوں کما کے اچھی زندگی گذاریں، گھر والے ان کو ہر کام کا کہتے تھے اور وہ کرتے بھی تھے مگر میرے نزدیک گھر والوں کی کچھ باتوں نے ہمیں پاس نہیں آنے دیا جس کی وجہ سے وہ بہت دور ہو گئے تھے۔ شروع میں گھر والے کہتے تم بیوی کے نیچے آلو لگے ہوتے ہو یہ ہر بات کو بہت سیریئس لیتے تھے لیکن منہ سے بولتے نہیں تھے۔ ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کو بیوی سے دور کر دیتی ہیں۔

میں اصل وجہ جاننے  سے قاصر ہوں مگر *** کو میں پسند تھی وہ مجھے چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ آخری دفعہ بھی ان کو غصہ اسی بات کا تھا کہ تم نے ابو کو کیوں شکایت لگائی کہ میں نے رستے میں لڑائی کی۔ ماموں نے فون کر کے ان کو بہت کچھ کہا تھا۔ *** کے غصے کی اصل وجہ ماموں کا فون کر کے ڈانٹنا تھا کہ مجھے سمن آباد سے لے کر آئیں۔ *** مجھے کہا کرتے تھے اکثر کہ مجھے پیچھے سے بہت سے باتیں سننا پڑتی ہیں تمہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا *** اکثر ہی مجھے کہہ دیا کرتے تھے  کہ ’’تم فارغ ہو اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ‘‘ مگر اس دن پتہ نہیں کیا ہوا انہوں نے ایسے سخت الفاظ استعمال کر لیے۔ میں اپنا گھر تباہ ہوتے ہوئے کبھی بھی نہیں دیکھ پاؤں گی۔ میری گذارش ہے کہ کوئی بھی پوائنٹ لے کے میرا گھر بچایا جائے۔ مرنے سے پہلے ہی دنیا میں الگ ہو جانا بہت مشکل ہے۔ اب *** میسج کر کے کہتے ہیں میں تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، میں نے تمہیں طلاق دی ہی نہیں ہے۔ *** کہتے ہیں تم نے اگر مجھے چھوڑا میں خود کو تمہارے سامنے مار دوں گا۔ انہوں نے شادی سے پہلے بھی اپنی جان لینے کی کوشش کی ہوئی ہے جب یہ پڑھتے تھے ان کی والدہ بتاتی ہیں۔ ایک دفعہ گولیاں کھائیں اور ایک دفعہ خود کو کٹس لگائے بازو پر۔ مجھے خود یہ محسوس ہوتا تھا کہ *** کبھی کبھی کچھ عجیب حرکتیں ہی کرتے تھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کر دیتے  بہت کچھ کہہ دیتے ان کا یہ طریقہ نارمل انسانوں والا نہیں تھا۔ مجھے *** خود بہت Depress لگتے تھے۔ اور جب بہت پریشان ہوتے تھے تو مجھے پاس سے ہلنے بھی نہیں دیتے  کہ تم پاس ہوتی ہو تو کوئی ٹینشن نہیں ہوتی میرے سامنے میرے پاس رہا کرو، آخری دن کچھ عجیب سی حالت تھی *** کی وہ اپنے آپ میں نہیں تھے، وہ بہت اونچا اونچا رو بھی رہے تھے، اپنے ابو کو گالیاں بھی دے رہے تھے، میں ان کے سامنے بھی نہیں تھی انہوں نے اتنے بڑے الفاظ مجھے کہہ دیے، مگر مجھے امید ہے اور اللہ پر پورا بھروسہ ہے کہ میرے مسئلے کا حل ضرور نکلے گا۔ میں اپنی نماز اور تلاوت میں خوش تھی مگر مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ کوئی اب ایسا فیصلہ نہ ہو جس سے ساری زندگی گناہ اور ثواب کے چکر میں پڑی رہے۔ خدارا کوئی ایسا فیصلہ کیجیے گا جس سے میری زندگی گناہ میں نہ پڑے اور ہمارا رشتہ برقرار رہے اور ٹوٹے نہ، میری غلطی کوئی نہیں تھی اس لیے مجھے حلالہ جیسے مشکل کام سے بچایے گا۔ مجھے اللہ کا ڈر بہت ہے امید بھی پوری ہے اللہ سے *** اسلام سے بہت دور ہیں مگر اللہ نے کیا تو یہ کام بھی انشاء اللہ آسان ہو جائے گا۔ میں ان کو ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش بھر پور کروں گی انشاء اللہ، میرے پاس اسلام کا علم کم ہے مگر پھر بھی میں اپنا گھر بچانا چاہتی ہوں میرا چھوٹا سا بچہ ہے اس کی زندگی خراب نہ ہو میں چاہتی ہوں کہ اس کے سر پر باپ کا سایہ برقرار رہے اور اللہ میری مدد کرے (آمین)۔ اتنا مجھے یقین تھا *** پر کہ وہ مجھے کبھی بھی چھوڑنے کے حق میں نہیں تھے۔

نوٹ: میں نے ہفتہ کی رات استخارہ کیا میں نے سبز اور سفید رنگ دیکھا ہے۔ *** کو بھی غصہ کی حالت میں دیکھا ہم کچھ عورتیں ہوتی ہیں کہیں گئے ہوئے ہوتے ہیں اور ایسے لگتا ہے واپسی بھی ساتھ ہو گی۔ آگے کچھ یاد نہیں یہ کہ میں نے سبز اور سفید رنگ بھی دیکھا ہے۔

نوٹ: چونکہ میں اوپر والے پورشن میں تھی مجھے کسی بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی غصے میں *** بہت کچھ بول رہے تھے تین بار طلاق کی آواز آئی، نہ میرا نام لیا، نہ میں سامنے تھی، بس ہوا میں تین بار اس لفظ کی سمجھ آئی پھر کچھ ہوش نہیں رہا یہ لفظ سنتے ہی، مجھے نہیں پتہ انہوں نے آگے بھی کچھ کہا یا نہیں۔

نوٹ: اکثر اوقات غصے میں یہ لفظ کہتے تھے ’’تم فارغ ہو جاؤ اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ‘‘ یہ الفاظ آخری دفعہ جو مجھے اچھی طرح یاد ہیں دسمبر 2016ء میں کہے تھے۔ اس کے بعد سے ہم لوگ اکٹھے رہے ہیں۔ اس دوران مجھے تین ماہواریاں آچکی ہیں۔ نیز میں حالیہ واقعہ کے بارے میں اپنے خاوند کے بیان کی نہ مکمل تردید کر سکتی ہوں اور نہ پوری یقین کے ساتھ تصدیق کر سکتی ہوں کیونکہ اس وقت میرے حواس مکمل بحال نہ رہے تھے اور فاصلہ بھی زیادہ تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہے پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے۔ دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نیا نکاح کرنا ضروری ہے جس میں گواہ بھی ہوں گے اور حق مہر بھی نئے سرے سے رکھا جائے گا۔ نیا نکاح کر لینے کے بعد یہ طلاق کالعدم نہیں ہو گی بلکہ شمار میں رہے گی اور آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

توجیہ: دسمبر 2016ء میں لڑائی کے دوران بولے گئے شوہر کے یہ الفاظ ’’تم فارغ ہو اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ‘‘ کنایہ ہیں اور تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن سے غصہ کی حالت میں بلا نیت کے ایک طلاق بائن پڑ جاتی ہے۔

اگرچہ شوہر نے یہ الفاظ متعدد مرتبہ بولے ہیں لیکن ان سے ایک طلاق ہی پڑی ہے۔ اور دسمبر 2016 کے بعد عدت بھی یقینی

طور پر ختم ہو گی ہے اس لیے بعد کے الفاظ بے اثر ہوئے۔ اس لیے ان کی تحقیق کی ضرورت نہیں۔

فتاویٰ شامی (4/539) میں ہے:

فروع: إنما يلحق الطلاق لمعتدة الطلاق ، أما المعتدة للوطء فلا يلحقها خلاصة.

مثاله: لو طلقها بائنا أو خالعها ثم بعد مضي حيضتين من عدتها مثلا وطئها عالما بالحرمة فلزمها عدة ثانية وتداخلتا، فإذا حاضت الثالثة فهي منهما ولزمها حيضتان أيضا لاكمال الثانية، فلو طلقها في الحيضتين الاخيرتين لا يقع لانها عدة وطئ لا طلاق………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved